خواہشات کا درخت اور ایک نوجوان کی خواہش

0

Scene showing moral lesson from The Tree of Wishes Urdu story  

ایک خوشحال گاؤں کے ٹھیک درمیان میں، جہاں صدیوں پرانا ایک بڑا درخت اپنی مضبوط شاخوں کو آسمان کی طرف پھیلائے کھڑا تھا، ایک عجیب و غریب روایت تھی۔ گاؤں کے لوگوں کا پختہ خیال تھا کہ جو بھی خوش نصیب شخص اس عظیم الشان درخت کے گھنے سائے کے نیچے بیٹھ کر ایک پورا دن، صبح سے شام تک، صبر اور یقین کے ساتھ گزارے گا، اس کی زندگی کی ہر چھوٹی بڑی خواہش ضرور پوری ہو جائے گی۔


 یہ درخت گاؤں والوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت اختیار کر گیا تھا، اور لوگ اپنی امیدوں اور آرزوؤں کی تکمیل کے لیے دور دراز سے یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔ ایک دن، اسی گاؤں میں رہنے والا ایک آدمی، جسے عام طور پر بہت ہی بھولا بھالا اور بے وقوف سمجھا جاتا تھا، اس مشہور درخت کے پاس آیا۔ اس کا نام رحیم تھا۔ رحیم کی زندگی ہمیشہ سے ہی مشکلات سے گھری رہتی تھی۔


 اس کے پاس نہ کوئی بڑا گھر تھا، نہ کوئی نوکر چاکر، اور نہ ہی دنیاوی دولت۔ وہ اکثر اپنی غربت اور بے بسی پر افسوس کرتا رہتا تھا۔ جب اس نے گاؤں والوں سے اس جادوی درخت کے بارے میں سنا، تو اس کے دل میں ایک نئی امید جاگی۔ اس نے فوراً یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی اس درخت کے نیچے بیٹھ کر ایک پورا دن گزارے گا، اور اپنی تمام خواہشوں کی تکمیل کے لیے دعا کرے گا۔


 وہ پرامید تھا کہ شاید اس درخت میں کوئی ایسی طاقت موجود ہے جو اس کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اگلی صبح، جب سورج کی پہلی سنہری کرنیں آسمان پر دکھائی دی، رحیم سویرے سویرے اس بڑے درخت کے نیچے پہنچ گیا اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنے دل میں چھپی تمام خواہشوں کو ایک ایک کر کے یاد کرنے لگا۔


 اس کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اس کے پاس ایک عالی شان اور بڑی حویلی ہو، جس میں بہت سارے وفادار نوکر اس کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر رہیں، اور وہ اتنا امیر ہو جائے کہ اسے زندگی میں کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ وہ ان خیالی تصویروں میں کھو گیا اور ایک پرامید انتظار میں وقت گزارنے لگا۔ دن آہستہ آہستہ گزرنے لگا۔


 دوپہر کے وقت، جب سورج اپنی پوری شان و شوکت پر تھا، ایک بکری والا اپنی بکریوں کے ریوڑ کو چراتا ہوا وہاں سے گزرا۔ اس نے دیکھا کہ ایک اجنبی آدمی اس بڑے درخت کے گھنے سائے میں خاموشی سے بیٹھا ہے۔ وہ اس کے پاس آیا اور دوستانہ انداز میں پوچھا، ارے بھائی، خیریت؟ تم یہاں اس گرمی میں کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سورج کتنا تیز ہے؟ 


رحیم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سادگی سے جواب دیا، میں یہاں اپنی ایک بہت بڑی خواہش پوری کرنے کے لیے بیٹھا ہوں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہ درخت جادوی ہے اور جو بھی اس کے نیچے پورا دن گزارتا ہے، اس کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ بکری والے نے حیرانی سے پوچھا، اچھا، تو تمہاری خاص خواہش کیا ہے؟ کیا تم کوئی خزانہ ڈھونڈ رہے ہو یا کسی بیماری سے شفا چاہتے ہو؟


 رحیم نے پرجوش لہجے میں کہا، میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس ایک شاندار اور بڑی حویلی ہو، جس میں بہت سارے نوکر میری خدمت کے لیے موجود ہوں، اور میں اتنا امیر ہو جاؤں کہ مجھے کبھی کسی کام کے لیے محنت نہ کرنی پڑے۔ بکری والے نے رحیم کی یہ خیالی باتیں سن کر مسکراتے ہوئے کہا، ارے بھائی، تم یہ سب کچھ ضرور حاصل کر سکتے ہو، لیکن صرف اس درخت کے نیچے بے کار بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔


 تمہیں اپنی خواہشوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ آسمان سے سونے کے سکے نہیں برستے! رحیم نے بکری والے کی نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے ضدی لہجے میں کہا، نہیں، میں یہیں بیٹھوں گا اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ درخت میری خواہش ضرور پوری کرے گا۔ مجھے بس صحیح وقت کا انتظار ہے۔ بکری والا رحیم کی بےوقوفی اور یقین پر ہنستے ہوئے اپنی بکریوں کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔


 اسے یقین تھا کہ یہ آدمی اپنا وقت برباد کر رہا ہے۔ شام کے وقت، جب سورج ڈھل رہا تھا اور دن کی روشنی ختم ہو رہی تھی، ایک کسان اپنے کھیتوں سے کام کر کے واپس آ رہا تھا۔ اس نے بھی اس آدمی کو اسی درخت کے نیچے بیٹھے دیکھا۔ کسان بھی اس کے پاس رکا اور پوچھا، اے نوجوان، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کیا سب خیریت ہے؟


 رحیم نے اسے بھی اپنی ساری بات بتائی اور اپنی خواہشات کا ذکر کیا۔ کسان، جو زندگی کے کڑوی سچائیوں سے واقف تھا، اس نے بھی اسے محنت اور جدوجہد کی اہمیت سمجھائی اور بیکار بیٹھ کر قسمت کا انتظار کرنے سے منع کیا۔ لیکن رحیم نے کسان کی نصیحت کو بھی سننے سے انکار کر دیا اور پہلے کی طرح پرعزم لہجے میں کہا، نہیں، میں یہیں بیٹھوں گا اور مجھے یقین ہے کہ یہ درخت میری خواہش ضرور پوری کرے گا۔


 مجھے بس تھوڑا اور انتظار کرنا ہوگا۔ کسان رحیم کی ضد اور خیالی پلاؤ پر ہلکا سا مسکرایا اور پھر اپنے راستے پر چلا گیا۔ اسے بھی یقین تھا کہ یہ شخص حقیقت سے دور بھاگ رہا ہے۔ رات ہو گئی۔ آسمان پر چاند نکلا اور ستارے چمکنے لگے۔ رحیم، اب دن بھر بیٹھے رہنے کی وجہ سے تھک ہار چکا تھا، لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اس کا یقین ابھی بھی قائم تھا۔


 تبھی، آدھی رات کے قریب، ایک بوڑھا اور دانا بزرگ، جس کی سفید داڑھی اس کے تجربے کی گواہی دے رہی تھی، اتفاقاً اس طرف سے گزرا۔ اس نے اس نوجوان کو تنہا اور اداس درخت کے نیچے بیٹھے دیکھا تو اس کے قریب آیا اور نرمی سے کہا، ارے بے وقوف نوجوان، تم یہاں اس ویرانے میں کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رات کتنی ٹھنڈی اور خطرناک ہو سکتی ہے؟ 


صرف اس درخت کے نیچے بے بے عمل بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر تمہیں اپنی خواہشات پوری کرنی ہیں تو اٹھو اور محنت کرو۔ قسمت ان لوگوں پر مہربان ہوتی ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ رحیم نے اس بزرگ کی عقلمندانہ بات کو غور سے سنا۔ ان کے الفاظ میں ایک سچائی اور خلوص تھا جس نے اس کے دل پر گہرا اثر کیا۔ اسے پہلی بار اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ 


اس نے اپنی خیالی دنیا سے باہر نکل کر حقیقت کی طرف دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بزرگ کی بات مان لی اور اگلے دن سے ہی محنت کرنا شروع کر دی۔ اس نے اپنی بچت سے ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لی اور اپنی محنت اور ایمانداری سے کام کرنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔


 وہ روز رات دن محنت کرتا رہا، اپنے کام کو بہتر بنانے کے لیے نئی نئی ترکیبیں سیکھتا رہا، اور اپنے گاہکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہا۔ وقت گزرتا گیا اور رحیم کی محنت رنگ لائی۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی چھوٹی سی دکان ایک کامیاب کاروبار میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی ایمانداری اور محنت کی وجہ سے اس کے گاہکوں کی تعداد بڑھتی گئی اور اس کی آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔


 آخرکار، وہ دن بھی آیا جب اس کے پاس اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ اس نے ایک بڑی اور خوبصورت حویلی خرید لی۔ اب اس کے پاس بہت سارے وفادار نوکر بھی تھے جو اس کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ رحیم نے اپنی محنت اور لگن سے وہ سب کچھ حاصل کر لیا تھا جس کی وہ کبھی صرف اس جادوی درخت کے نیچے بیٹھ کر تمنا کرتا تھا۔ اسے اب سمجھ آ گیا تھا کہ حقیقی جادو محنت میں ہے، نہ کہ کسی درخت کے نیچے بے کار بیٹھے رہنے میں۔


سبق: محنت کے بغیر کبھی کچھ نہیں ملتا۔ خواہشات صرف خوابوں میں رہ جاتی ہیں اگر ہم ان کے حصول کے لیے کوشش نہ کریں۔ زندگی میں کامیابی کے لیے محنت کرنا ضروری ہے۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)