قدیم ہندوستان کی سرزمین پر، ایک عظیم الشان سلطنت قائم تھی جس پر بادشاہ اکبر کی حکمرانی تھی۔ بادشاہ اپنی دانائی اور اپنی سلطنت کے لوگوں سے گہری محبت کے لیے مشہور تھے۔ وہ اکثر اپنی رعایا کے حالات جاننے اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے نئے نئے طریقے سوچتا رہتا تھا۔ ایک دن، بادشاہ اکبر کے ذہن میں اچانک ایک انوکھا خیال آیا۔
وہ اپنی بہت بڑی ریاست کے لوگوں کی سمجھداری اور عقلمندی کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس کی رعایا میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو نہ صرف طاقتور ہیں بلکہ ذہین بھی ہیں۔ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے، بادشاہ نے ایک خاص چال سوچی۔ اس نے اپنے وزیروں اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ شہر کے بالکل بیچ میں، جہاں لوگوں کا روزانہ گزر ہوتا ہے، ایک بہت بڑا اور وزنی پتھر رکھوا دیں۔
یہ پتھر اتنا بڑا اور بھاری تھا کہ دیکھنے والے بھی اس کی جسامت سے متاثر ہو جاتے تھے۔ جب پتھر رکھ دیا گیا، تو بادشاہ نے پورے شہر میں اعلان کروایا کہ جو بھی شخص اس بھاری پتھر کو اپنی طاقت یا عقل سے ہٹا دے گا، اسے بادشاہ کی طرف سے ایک شاندار اور قیمتی انعام سے نوازا جائے گا۔ بادشاہ کا یہ اعلان پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔
لوگ بڑی تعداد میں اس بڑے پتھر کو دیکھنے کے لیے جمع ہونے لگے۔ ہر کوئی اپنی اپنی طاقت اور اندازے سے پتھر کو ہلانے اور ہٹانے کی کوشش کرنے لگا۔ طاقتور پہلوانوں نے اپنے بازوؤں کا زور لگایا، نوجوانوں نے مل کر دھکے دیے، لیکن وہ بڑا پتھر اپنی جگہ سے ذرا بھی نہ ہلا۔ وہ زمین پر اس قدر مضبوطی سے جما ہوا تھا جیسے صدیوں سے وہیں موجود ہو۔
جب کئی گھنٹوں کی مسلسل کوشش کے بعد بھی پتھر اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا نہ ہوا، تو سب لوگ مایوس ہو کر ایک ایک کر کے وہاں سے چلے گئے۔ ان کے چہروں پر ناکامی اور حیرت کے آثار نمایاں تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ آخر کون اس پتھر کو ہٹا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا۔ لوگ آتے، اپنی قسمت آزماتے اور پھر ناکام ہو کر چلے جاتے۔
ایک دن، جب لوگوں کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں اور پتھر اپنی جگہ پر خاموشی سے موجود تھا، ایک چھوٹا سا لڑکا وہاں آیا۔ وہ عام سا لڑکا تھا، نہ کوئی پہلوان اور نہ ہی کوئی بڑا آدمی۔ اس نے اس بڑے پتھر کو غور سے دیکھا، اس کے اردگرد کا جائزہ لیا اور پھر زمین پر بیٹھ کر پتھر کے اردگرد سے مٹی اور چھوٹے چھوٹے کنکر ہٹانے لگا۔ اس نے بڑی احتیاط اور صبر سے کام لیا۔
جب اس نے پتھر کے نچلے حصے سے کافی مٹی ہٹا دی، تو اس نے ایک گہری سانس لی اور اپنی تمام تر توجہ اور طاقت کے ساتھ پتھر کو دھکا دیا۔ کمال کی بات یہ ہوئی کہ وہ بڑا پتھر جو بڑے بڑے طاقتور لوگوں سے بھی نہیں ہلا تھا، اس چھوٹے سے لڑکے کے زور لگانے پر آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے ہلنے لگا اور لڑھک گیا۔ پتھر کے نیچے ایک چھوٹا سا مٹی آلود خط دبا ہوا تھا۔
لڑکے نے حیرانی سے خط اٹھایا اور اسے کھول کر پڑھا۔ اس پر سنہری حروف میں لکھا تھا مبارک ہو! اے عقلمند لڑکے، تم نے بادشاہ کا امتحان کامیابی سے پاس کر لیا ہے۔ اب تمہیں یہ خط انعام حاصل کرنے کے لیے خود بادشاہ اکبر کو دکھانا ہے۔ خط پڑھ کر لڑکا خوشی سے جھوم اٹھا۔ اسے اپنی محنت اور عقل پر فخر محسوس ہوا۔
وہ لڑکا فوراً وہ خط لے کر بادشاہ کے محل کی طرف روانہ ہوا۔ جب وہ دربار میں پہنچا اور بادشاہ اکبر کو خط دکھایا، تو بادشاہ نے خط پڑھا اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ لڑکے کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا، اے نوجوان، تم نے اس بھاری پتھر کو ہٹا کر نہ صرف اپنی غیر معمولی عقلمندی کا ثبوت دیا ہے، بلکہ اپنی ہمت اور ثابت قدمی کا بھی لوہا منوایا ہے۔
تمہیں انعام کے طور پر یہ سونے کے سکے ملیں گے۔ بادشاہ نے اپنے خزانچی کو حکم دیا اور لڑکے کو سونے کے سکوں کی ایک تھیلی پیش کی گئی۔ لڑکے نے ادب سے سکے لیے اور بادشاہ کا شکریہ ادا کیا۔ پھر وہ ہمت کر کے بولا، جناب عالی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پتھر تو اتنا بھاری نہیں تھا۔ میں نے تو اسے بڑی آسانی سے ہٹا دیا۔
بادشاہ اکبر، لڑکے کی بات سن کر حیران ہو گئے اور پوچھا، ہلکا؟ لیکن ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ وہ پتھر بہت بھاری ہے۔ کئی طاقتور اور تجربہ کار لوگوں نے اسے ہٹانے کی کوشش کی، لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ تم نے اسے اتنی آسانی سے ہٹا دیا؟ لڑکے نے مسکرا کر جواب دیا، جناب عالی، دراصل اس بڑے پتھر کے نیچے ایک چھوٹا سا گڑھا بنا ہوا تھا، جس میں وہ پتھر مضبوطی سے بیٹھا ہوا تھا۔
میں نے صرف اس گڑھے کے اردگرد کی مٹی کو ہٹایا، اور جب پتھر کی گرفت کمزور ہوئی تو وہ خود بخود ہل گیا اور لڑھک گیا۔ بادشاہ اکبر لڑکے کی اس ذہانت اور مسئلے کو حل کرنے کے انوکھے طریقے پر بہت خوش ہوئے اور زور سے ہنس پڑے۔ انہوں نے کہا، واہ لڑکے، تم نے نہ صرف اپنی عقلمندی کا شاندار ثبوت دیا، بلکہ اپنی غیر معمولی ذہانت سے تو مجھے بھی حیران کر دیا اور ایک طرح سے ہرا دیا۔
تمہارا انعام صرف یہ سونے کے سکے نہیں، بلکہ تمہاری یہ دانائی اور حاضر دماغی بھی ہے۔ تم نے یہ ثابت کر دیا کہ طاقت سے زیادہ عقل کام آتی ہے۔ بادشاہ نے لڑکے کی تعریف کی اور اسے مزید انعامات سے بھی نوازا۔ اس واقعے سے بادشاہ اکبر کو یہ بھی سبق ملا کہ بظاہر مشکل نظر آنے والے مسائل کا حل اکثر سادہ اور عقل مندی سے سوچنے میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔
سبق: بڑی کامیابیاں اکثر ایک چھوٹے قدم سے شروع ہوتی ہیں؛ اس لیے عمل کرنے سے مت ڈرو۔