Wrong message and family laughter غلط پیغام اور خاندان کی ہنسی

Uzaif Nazir
0

Scene showing moral lesson from Wrong message and family laughter Urdu story

عمران آج بہت خوش تھا، اس کے بارہویں جماعت کے امتحان ختم ہو چکے تھے اور وہ آزادی کی سانس لے رہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بس لیٹا رہے، کچھ نہ کرے، اور موبائل فون پر اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگائے۔ لیکن اس کی یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا، اس کی امی کی آواز آئی، عمران بیٹا، ذرا ادھر آنا۔ عمران نے ایک لمبی آہ بھری۔

 اسے معلوم تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ امتحان ختم ہونے کا مطلب تھا گھر کے کاموں کی لمبی فہرست۔ اور اس کے اندازے کے مطابق، امی کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ تبھی امی نے کہا بیٹا، یہ دیکھو، گھر کے کچھ کام ہیں جو تمہیں کرنے ہیں۔ امی نے مسکراتے ہوئے کہا، لیکن عمران کو اس مسکراہٹ کے پیچھے ایک بڑی مشکل نظر آ رہی تھی۔ عمران نے پیار سے کہا، امی، ابھی تو امتحان ختم ہوئے ہیں، تھوڑا تو آرام کرنے دیں۔

 امی نے کاغذ اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا آرام ہی آرام ہے بیٹا، یہ چھوٹے موٹے کام ہیں، جلدی ہو جائیں گے۔ عمران نے لسٹ پر نظر ڈالی۔ برتن دھونا، کمرے صاف کرنا، کپڑے تہہ کرنا، اور سب سے آخر میں جو کام لکھا تھا اسے دیکھ کر عمران کا منہ بن گیا، کبوتروں کا پنجرہ صاف کرنا۔ عمران کو کبوتروں سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ بلکہ سچ تو یہ تھا کہ اسے ان سے تھوڑی پریشانی تھی۔

 ان کا پنجرہ صاف کرنا اس کے لیے ایک بہت بڑا عذاب تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اب وہ اپنے دوست کو کیا بتائے گا کہ اس کی آزادی کیسے چھن گئی ہے۔ اس نے فوراً اپنے فون میں واٹس ایپ گروپ کھولا اور اپنے دوست کو وائس نوٹ بھیجنے کا ارادہ کیا۔ اس نے ایک لمبی سانس لی اور بولنا شروع کیا، یار، میری تو قسمت ہی خراب ہے۔ امتحان ختم ہوتے ہی امی نے کاموں کی پوری لسٹ تھما دی ہے۔

 اور سب سے مشکل کام پتا ہے کیا ہے؟ ان کبوتروں کا پنجرہ صاف کرنا! یار، ان کی صفائی کرنا تو ایک الگ ہی مشکل ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کبوتر ہیں یا کوئی جنگلی جانور۔ ہر طرف گند، اور ان کی آوازیں! میرا تو سر درد ہونے لگتا ہے۔ کاش امی یہ کبوتر بیچ ہی دیتیں۔ عمران نے اپنی پوری بھڑاس اس وائس نوٹ میں نکالی۔ اس نے اسے مزید مزاحیہ بنانے کے لیے اپنی آواز کو بھی تھوڑا ڈرامائی بنا دیا۔

 وائس نوٹ بھیجنے کے بعد اس نے فون سائیڈ پر رکھا اور کبوتروں کے پنجرے کی طرف بڑھنے لگا۔ ابھی وہ پنجرے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اسے اپنے کمرے سے امی کی چیخنے کی آواز آئی۔ عمران! یہ کیا بدتمیزی ہے؟ یہ کیا بھیجا ہے تم نے؟ عمران حیران ہو گیا۔ اس نے سوچا شاید امی نے غلطی سے اس کا وائس نوٹ سن لیا ہو گا جو اس نے دوستوں کو بھیجا تھا۔ وہ بھاگ کر کمرے میں آیا۔ امی کا چہرہ غصے سے لال تھا اور ان کے ہاتھ میں فون تھا۔ 

امی نے فون اس کی طرف بڑھایا اور کہا یہ دیکھو، یہ کیا بھیجا ہے تم نے؟ عمران نے فون کی سکرین پر دیکھا۔ اس کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے غلطی سے وائس نوٹ دوستوں گروپ کی بجائے فیملی گروپ میں بھیج دیا تھا۔ اس وائس نوٹ میں اس نے کبوتروں کی صفائی اور ان کی آوازوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، وہ خاندان کے تمام افراد نے سن لیا تھا۔ امی نے غصے سے کہا، یہ کبوتر تمہیں جنگلی جانور لگتے ہیں؟ یہ وہی کبوتر ہیں جنہیں تمہارے ابو نے اتنے شوق سے پالا ہے۔

 اور تم ان کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہو؟ عمران کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ وہ شرمندگی سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ اس نے فوراً وائس نوٹ ڈیلیٹ کرنے کی کوشش کی، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ فیملی گروپ میں پیغامات کی بارش شروع ہو چکی تھی۔ پہلا پیغام اس کی باجی کا تھا، ہاہاہا! عمران، تمہاری تو خیر نہیں۔ امی نے سن لیا ہو گا یہ۔ پھر خالہ کا پیغام آیا، عمران بیٹا، کبوتروں سے اتنی نفرت؟ یہ تو بہت پیارے ہوتے ہیں۔

 پھر پھوپھو کا پیغام، ہائے، یہ بچہ تو کبوتروں کو جنگلی جانور کہہ رہا ہے۔ لگتا ہے آج اسے زیادہ صفائی کرنی پڑے گی۔ ایک کزن کا پیغام، عمران بھائی، کبوتروں کی آوازیں تو بہت اچھی لگتی ہیں۔ آپ کو کیوں سر درد ہوتا ہے؟ اور پھر ایک اور کزن کا پیغام، لگتا ہے آج عمران بھائی کو کبوتروں کا پنجرہ چمکانا پڑے گا۔ عمران کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ زمین میں دھنس جائے۔ اس نے امی کی طرف دیکھا۔ امی ابھی بھی غصے میں تھیں۔

 چلو، جاؤ! ابھی جا کر پنجرہ صاف کرو۔ اور آج تمہیں ایک نہیں، دو بار صاف کرنا پڑے گا۔ عمران نے سر جھکا لیا اور کبوتروں کے پنجرے کی طرف دوبارہ روانہ ہوا۔ اس بار اس کے دل میں کبوتروں کے لیے تھوڑی ہمدردی بھی پیدا ہو گئی تھی، کیونکہ ان کی وجہ سے وہ آج اتنی بڑی مشکل میں پھنسا تھا۔ اس نے پنجرہ صاف کرنا شروع کیا، اور ہر بار جب کوئی کبوتر غٹر غوں کرتا، اسے اپنے بھیجے ہوئے وائس نوٹ کی یاد آ جاتی اور وہ اندر ہی اندر ہنسنے لگتا۔

 کچھ دیر بعد اس کے ابو بھی وہاں آئے۔ انہوں نے عمران کو کام کرتے دیکھا اور ہلکے سے مسکرائے۔ کیا ہوا بیٹا؟ آج کبوتروں سے اتنی محبت کیسے؟ ابو نے چھیڑتے ہوئے کہا۔ عمران نے شرمندگی سے ابو کی طرف دیکھا۔ ابو، وہ غلطی سے وائس نوٹ فیملی گروپ میں چلا گیا۔ ابو نے ہنستے ہوئے کہا، ہاں، میں نے بھی سنا۔ تمہاری امی تو بہت غصے میں تھیں۔ لیکن تم نے کبوتروں کو جنگلی جانور کیوں کہا؟ 

عمران نے منہ بنایا، ابو، وہ تو بس دوست کو بھیج رہا تھا۔ زیادہ ڈرامائی کر رہا تھا۔ ابو ہنس پڑے، اچھا، اچھا۔ اب جب بھی کبوتر غٹر غوں کریں گے، تمہیں تمہارا وائس نوٹ یاد آئے گا۔ عمران نے پنجرہ صاف کیا اور پھر برتن دھونے چلا گیا۔ اس کے بعد اس نے کمرے صاف کیے اور کپڑے تہہ کیے۔ ہر کام کرتے ہوئے اسے خاندان گروپ میں آنے والے پیغامات اور امی کا غصہ یاد آ رہا تھا، اور وہ دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہو رہا تھا اور ہنس بھی رہا تھا۔

 رات کو جب سب کھانے پر بیٹھے، تو باجی نے پھر چھیڑنا شروع کیا۔ امی، آج کبوتروں کا پنجرہ چمک رہا ہے۔ لگتا ہے عمران بھائی نے بہت محنت کی ہے۔ امی نے ایک نظر عمران پر ڈالی اور ہلکا سا مسکرائیں۔ ہاں، آج اسے سبق مل گیا ہو گا۔ عمران نے جلدی سے کھانا ختم کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے اپنا فون اٹھایا اور فیملی گروپ کھولا۔ وہاں ابھی بھی اس کے وائس نوٹ پر تبصرے ہو رہے تھے۔

 ایک کزن نے لکھا تھا، عمران بھائی، اب تو کبوتروں کو پیار کرنا پڑے گا۔ عمران نے فون بند کیا اور سوچا کہ ایک چھوٹی سی غلطی کیسے اتنی بڑی ہنسی کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ کوئی بھی پیغام بھیجنے سے پہلے دس بار گروپ کا نام ضرور چیک کرے گا۔ اور کبوتر؟ وہ اب اسے اتنے برے نہیں لگتے تھے، کیونکہ وہ اسے ایک بہت بڑا اور مزاحیہ سبق سکھا چکے تھے۔ جب بھی وہ کبوتروں کی آواز سنتا، اسے وہ دن یاد آ جاتا اور وہ بے اختیار ہنس پڑتا۔ یہ دن اس کے لیے ایک یادگار دن بن گیا تھا، ایک ایسا دن جب اس کی ایک غلطی نے پورے خاندان کو ہنسنے کا موقع فراہم کیا تھا۔

سبق: جلد بازی میں بھیجے گئے پیغام اکثر شرمندگی اور ہنسی کی وجہ بنتے ہیں۔

  • Newer

    Wrong message and family laughter غلط پیغام اور خاندان کی ہنسی

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)