قائداعظم وہ رہنما جس نے تاریخ رقم کی

0

Scene showing moral lesson from Quaid-e-Azam A true leader Urdu story

ایک ایسا شخص جس کے چہرے پر ہمیشہ سنجیدگی رہتی تھی، جس کی شخصیت میں لوہے جیسی مضبوطی تھی اور جس کی آنکھوں میں ایک ایسا گہرا عزم جھلکتا تھا جو لاکھوں کی تقدیر بدلنے والا تھا۔ وہ ایک ایسے راہنما تھے جو محض الفاظ سے نہیں، بلکہ اپنے پختہ ارادے اور بے مثال ایمانداری سے دلوں پر راج کرتے تھے۔ یہ صرف ایک تاریخ کا حصہ نہیں، بلکہ اُس عظیم ہستی کے عزم، مستقل مزاجی اور ایک اَن کہے خواب کو حقیقت بنانے کے سفر کی ایک سچی کہانی ہے۔


 یہ کہانی ہے قائداعظم محمد علی جناح کی۔ انیسویں صدی کے آخری حصے میں کراچی کے ایک تاجر کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام محمد علی رکھا گیا۔ بچپن سے ہی اُس کے اندر ایک عجیب سی سنجیدگی اور اپنے کام میں ڈوب جانے کی عادت تھی۔ وہ عام بچوں کی طرح کھیل کود میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا، بلکہ اپنی سوچوں میں گم رہتا۔ اُس کی تیز نگاہیں اور گہری سوچ بتاتی تھی کہ یہ بچہ عام نہیں ہے۔


 اس نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر سے حاصل کی، پھر مزید تعلیم کے لیے انگلستان کا سفر کیا۔ انگلستان کی سرزمین پر نوجوان محمد علی نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں کا ماحول، وہاں کے نظریات اور وہاں کے سماجی ڈھانچے نے اُس کی سوچ کو مزید پختہ کیا۔ وہ ایک بہترین وکیل بن کر ہندوستان واپس لوٹا۔ اس کی شخصیت میں پختگی آ چکی تھی، اس کی دلیل میں وزن تھا اور اس کے الفاظ میں سچائی کی چمک۔ 


عدالت میں وہ ایک طاقتور وکیل کے طور پر ابھرا، جس نے اپنے عزم سے بڑے سے بڑے مقدمات جیتے اور لوگوں کو متاثر کیا۔ اُس کی کامیابی کی گونج ہندوستان کے ہر کونے تک پہنچنے لگی۔ محمد علی جناح نے جب سیاست میں قدم رکھا، تو اُن کا پہلا خواب ایک متحدہ ہندوستان تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے تمام بڑے گروہ، جو کئی ثقافتوں پر مشتمل تھے، ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ وہ سب کے حقوق کے محافظ بننا چاہتے تھے۔


 انہوں نے ہندوستانی نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جانے لگا۔ یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں تھا، یہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں، ان کی انصاف پسندی اور ان کی غیر جانبداری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ان کا مقصد سب کے لیے آزادی اور ترقی تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ، محمد علی جناح نے دیکھا کہ ان کا خواب، ایک متحدہ ہندوستان کا خواب، شاید حقیقت بننے والا نہیں۔


 انہوں نے محسوس کیا کہ کچھ خاص سیاسی جماعتوں کے اندر مخصوص طبقات کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ کچھ طاقتیں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے بار بار، اپنی پوری قوت کے ساتھ، تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی۔ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ان آوازوں کو سنا نہیں جا رہا اور مستقبل میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ممکن نہیں رہے گا، تب ان کی سوچ میں ایک بڑا موڑ آیا۔ 


اب ان کا مقصد ایک ایسا نیا علاقہ تھا جہاں وہ تمام لوگ، جو اپنی ثقافت اور طرزِ زندگی کے تحفظ کے خواہش مند تھے، اپنی شناخت کے ساتھ آزادانہ طور پر رہ سکیں۔ یہ ایک ایسا نظریاتی ملک تھا جہاں تمام شہریوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوتے۔ اس خواب کو حاصل کرنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار تھا۔ ان کا مقابلہ نہ صرف برطانوی اقتدار سے تھا بلکہ ہندوستان کی دیگر طاقتور سیاسی جماعتوں سے بھی تھا۔ 


انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اُن پر الزامات لگائے گئے، اور اُن کی نیت پر شک کیا گیا۔ لیکن قائداعظم اپنے فیصلے پر ثابت قدم تھے۔ ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنے الفاظ، اپنی عقل اور مستقل کام سے کروڑوں لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیا۔ اُس وقت ہندوستان میں ایک ایسی قوم تھی جو اپنے حقوق سے محروم اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے بے چین تھی۔ قائداعظم نے انہیں ایک نیا رخ دیا، ایک مقصد دیا اور ایک پرچم تلے جمع کیا۔


 وہ ایک کے بعد ایک جلسے کرتے، تقریریں کرتے، اور دلیل سے اپنی بات سمجھاتے۔ لوگ اُن کی بات کو سمجھنے لگے اور ان کی قیادت پر یقین کرنے لگے۔ ان کی صحت، جو اب کمزور ہوتی جا رہی تھی، انہیں روک نہ سکی۔ وہ دن رات محنت کرتے، بیماری کو چھپاتے، اور اپنے مقصد کے لیے اپنی ذاتی زندگی کی ہر خوشی کو قربان کر دیتے۔ انہوں نے اپنے اصولوں کو کبھی تبدیل نہ کیا۔ وہ ایک حقیقت پسند اور سیدھے راستے پر چلنے والے رہنما تھے۔


 بالآخر، ان کا عزم رنگ لایا۔ 14 اگست 1947 کو ایک نیا ملک، ایک نیا جغرافیائی خطہ نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ایک مشکل ترین وقت تھا۔ ملک کی تقسیم کے ساتھ بہت سے ہنگامے اور مشکلات بھی آئیں۔ لوگ بے گھر ہوئے، ہجرت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ نئے بننے والے ملک کے پاس کچھ نہیں تھا، لیکن قائداعظم کے پاس ایک قوم کا عزم اور ایک واضح نظریہ تھا۔


 انہوں نے نئے ملک کے پہلے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی۔ انہوں نے لوگوں کو مبارکباد دی، ان میں ایک نیا حوصلہ پیدا کیا، اور انہیں ایک مضبوط مستقبل کا خواب دکھایا۔ قائداعظم نے اپنی آخری سانس تک پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ ان کی صحت انہیں مزید وقت نہ دے سکی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس بہت کم وقت ہے، لیکن انہوں نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ آخرکار وہ 11 ستمبر 1948 کو وفات پاگئے۔ 


وہ ایک ایسے ملک کا خواب دیکھتے تھے جہاں سب برابر ہوں، جہاں انصاف کا بول بالا ہو، جہاں کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور جہاں ہر فرد کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ ایک ایسا ملک جہاں ہر شخص آزادانہ طور پر اپنی زندگی گزار سکے۔ آج بھی، قائداعظم محمد علی جناح کا نام عزم، ایمانداری، اور انصاف کی علامت ہے۔ ان کی زندگی ایک بہترین مثال ہے کہ کیسے ایک انسان اپنی محنت، مستقل مزاجی اور اپنے اصولوں پر ثابت قدمی سے ایک ناممکن خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔ وہ صرف ایک رہنما نہیں تھے، وہ ایک نظریہ تھے، ایک ایسا نظریہ جو آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے۔


سبق: پختہ عزم، مسلسل محنت اور دیانت داری سے ناممکن کام کو بھی حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)