چھوٹے سے شہر کی گلیوں میں دو بچے ہر شام ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ احمد اور زینب۔ احمد کا گھر گلی کے اس کنارے پر تھا جہاں چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں تھیں، جبکہ زینب کا بڑا سا بنگلا گلی کے دوسرے سرے پر تھا۔ دونوں کی دوستی اس وقت شروع ہوئی جب زینب نے ایک دن احمد کو اپنی نئی گڑیا دکھانے کے لیے بلایا تھا۔ وہ دن تھا اور آج کا دن، دونوں ایک دوسرے کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔
وقت گزرتا گیا۔ دونوں ایک ہی اسکول میں پڑھتے، ایک ہی بس میں سفر کرتے، اور شام کو ایک ہی پارک میں بیٹھ کر اپنے خواب سنایا کرتے۔ احمد کو زینب کی ہنسی پسند تھی، اور زینب کو احمد کی آنکھوں میں چمکتی ہوئی ایمانداری۔ دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے وہ احساس پیدا ہو گیا جو دوستی سے آگے کی بات تھی، مگر وہ اسے الفاظ میں ڈھالنے سے ڈرتے تھے۔ ایک دن زینب کے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ وہ احمد سے ملتی ہے۔
اس کے والد، جو شہر کی سب سے بڑی کمپنی میں ڈائریکٹر تھے، نے اسے سختی سے منع کر دیا اور کہا تمہیں اس غریب لڑکے سے دوستی کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہارے لیے بہتر رشتے آئیں گے۔ زینب نے بہت ضد کی، روئی، منتیں کیں، مگر اس کے والد کا فیصلہ پختہ تھا۔ ایک رات، احمد کے گھر پولیس آئی۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ شہر چھوڑ دیں۔ احمد کے والد، جو ایک معمولی مزدور تھے، نے ہمت نہیں ہاری۔
انہوں نے اپنا سامان باندھا اور اگلے ہی دن خاندان سمیت دوسرے شہر چلے گئے۔ احمد نے زینب کو آخری بار دیکھنے کی کوشش کی، مگر نہ دیکھ پایا۔ وہ کچھ دنوں کے لیے اپنی خالہ کے گھر بھیج دی گئی تھی۔ سالوں گزر گئے۔ زینب نے احمد کو بہت یاد کیا۔ وہ اس کو خطوط لکھتی، مگر پتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھیج نہیں پاتی۔ احمد نے بھی اسے کبھی نہیں بھلایا۔ اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا کچھ کرے گا کہ کبھی کسی کو اس کی غربت پر طعنہ دینے کا موقع نہ ملے۔
احمد نے دن رات ایک کر دیا۔ اس نے اپنی پڑھائی پوری کی، چھوٹے موٹے کام کیے، اور آخرکار ایک چھوٹی سی کمپنی میں نوکری حاصل کر لی۔ وہ ہر طرح کے کام کرتا، چاہے وہ چائے پہنچانا ہو یا فائلیں ترتیب دینا۔ اس کی محنت دیکھ کر اس کے مالک نے اسے ترقی دے دی۔ سال بہ سال، احمد کی محنت رنگ لاتی گئی۔ وہ ایک چھوٹے سے کلرک سے بڑے عہدے تک پہنچ گیا۔ دس سال بعد، احمد نے اپنی محنت سے اتنی دولت جمع کر لی کہ اس نے ایک بڑی کمپنی خریدنے کا فیصلہ کیا۔
یہ وہی کمپنی تھی جہاں زینب کے والد کام کرتے تھے۔ جب احمد نے کمپنی کا دورہ کیا تو اسے ایک کمرے میں زینب کے والد نظر آئے۔ وہ بوڑھے ہو چکے تھے، مگر ان کی آنکھوں میں وہی تکبر تھا۔ زینب کے والد نے جب احمد کو دیکھا تو ان کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ احمد نے ان سے نرمی سے بات کی اور کہا آپ نے مجھے شہر سے نکالا تھا، مگر آپ کی وجہ سے ہی میں آج یہاں تک پہنچا ہوں۔
زینب کے والد شرمندہ ہوئے۔ انہوں نے احمد سے معافی مانگی۔ احمد نے مسکرا کر کہا، زینب کیسی ہے؟ زینب کے والد نے آنکھیں نیچی کر لیں۔ اس کی شادی ہو چکی ہے۔ یہ بات سن کر احمد کے دل پر جیسے کوئی چوٹ لگ گئ۔ اس نے خود کو سنبھالا اور کہا، مجھے خوشی ہے کہ وہ خوش ہے۔ کچھ دنوں بعد، احمد نے زینب کا پتہ لگوا لیا۔
وہ اکثر دور سے اسے دیکھتا، مگر کبھی اس سے بات نہیں کی۔ وہ جانتا تھا کہ اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ ایک دن اس نے زینب کو اپنے بچوں کے ساتھ پارک میں دیکھا۔ وہ ہنستے کھیلتے بچوں کو دیکھ رہی تھی، اور احمد دور کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ زینب نے اچانک سر اٹھایا۔ اسے لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، مگر احمد پہلے ہی چلا گیا تھا۔
اس تجربے سے احمد نے سیکھا کہ کچھ محبتیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ کچھ کہانیاں مکمل نہیں ہوتیں۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر محبت کا مقصد ہمیشہ اکٹھے ہونا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی وہ ہمیں بہتر بننے کی ترغیب دینے کے لیے ہوتی ہے۔ احمد نے زینب کی محبت میں اپنی زندگی بدل دی، اور زینب نے ہمیشہ اسے اپنے دل میں زندہ رکھا۔
سبق: کچھ رشتے ہماری زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں اور ہمیں اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کا حوصلہ دیتے ہیں۔