صبح کی نرم دھوپ کمرے میں پھیل رہی تھی جب احمد کی آنکھ کھلی۔ وہ اپنے بستر پر لیٹا موبائل فون پر ویڈیوز دیکھ رہا تھا۔ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ احمد بیٹا، اٹھ جاؤ، ناشتہ تیار ہے، ماں کی نرم آواز آئی۔ احمد نے بے چینی سے کہا ابھی نہیں! مجھے سونے دو، وہ غرایا۔ ماں نے پیار سے کہا، لیکن تمہاری کلاس کا وقت ہو رہا ہے بیٹا۔ احمد کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
اس نے تلخ لہجے میں ماں سے کہا تم ہمیشہ میری زندگی میں دخل دیتی ہو! مجھے تنگ مت کرو۔ ماں نے کچھ نہ کہا اور وہاں چلی گئی۔ احمد ایک سترہ سالہ لڑکا تھا جو اپنے والدین کے ساتھ ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا تھا۔ اس کے والد ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے جبکہ ماں گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھی۔ احمد کو اپنے والدین کی اس محنت کی کوئی قدر نہ تھی۔
وہ ہمیشہ ان پر چلاتا، ان کی باتوں کو ٹالتا اور ان کی قربانیوں کو اپنا حق سمجھتا تھا۔ اس کے دوستوں کے پاس نئے کپڑے، مہنگے فون اور گاڑیاں تھیں، اور احمد ہمیشہ اپنے والدین کو ان چیزوں کے لیے تنگ کرتا رہتا تھا۔ اس دن سکول سے واپسی پر احمد نے اپنے دوستوں کے ساتھ بازار میں وقت گزارا۔ وہ گھر پہنچا تو ماں نے مسکراتے ہوئے کہا، بیٹا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے، جلدی سے کھا لو۔
احمد نے غصے سے جواب دیا، مجھے بھوک نہیں ہے! تم ہر وقت کھانے کا شور کیوں مچاتی رہتی ہو؟ باپ نے نرمی سے سمجھایا، بیٹا، ماں تمہاری فکر کرتی ہے۔ لیکن احمد نے ان کی بات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ ایک دن احمد کے والد شدید بیمار پڑ گئے۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کرنے کو کہا۔ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ماں نے گھر کے کاموں کے علاوہ ایک فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا۔
وہ صبح سویرے اٹھتی، ناشتہ تیار کرتی، احمد کے لیے لنچ پیک کرتی، پھر فیکٹری چلی جاتی۔ شام کو واپس آتی تو گھر کے کام نمٹاتی۔ لیکن احمد کو اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ ایک دن احمد نے اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جانے کے لیے پیسے مانگے۔ ماں نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا، بیٹا، ابھی گھر کی صورت حال ٹھیک نہیں۔ تمہارے ابّو بیمار ہیں، ہماری آمدنی کم ہو گئی ہے۔
احمد کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ تم سب میرے ساتھ ظلم کرتے ہو! میرے دوستوں کے پاس سب کچھ ہے، اور میں ہر چیز کے لیے تمہارے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوں؟ یہ کہہ کر وہ غصے سے باہر نکل گیا۔ کچھ دن بعد احمد کے دوست راجو نے اسے اپنے گھر بلایا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ راجو اپنی ماں کا بہت احترام کرتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ پیار سے بات کرتا، ان کا ہاتھ بٹاتا اور ان کی ہر بات مانتا تھا۔
راجو کی ماں نے احمد سے پوچھا، بیٹا، تمہاری ماں کیسی ہیں؟ احمد نے بے پروائی سے جواب دیا، وہ تو ہمیشہ مجھے تنگ کرتی رہتی ہیں۔ راجو کی ماں نے مسکرا کر کہا، بیٹا، ماں کی محبت دنیا کی سب سے انمول چیز ہے۔ جو اس کی قدر نہیں کرتا، وہ آخر پچھتاتا ہے۔ یہ بات احمد کے دل میں اتر گئی۔ شام کو جب وہ گھر واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کرسی پر تھک کر سو گئی تھی۔
اس کے ہاتھوں پر کام کے نشانات تھے۔ چہرے پر تھکاوٹ کے آثار تھے۔ باپ کی صحت اب بھی ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ اچانک احمد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسے اپنی تمام غلطیاں یاد آ گئیں۔ اگلی صبح احمد نے اپنی ماں کو جگایا۔ امی... میں معافی چاہتا ہوں، اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔ ماں حیران رہ گئی۔ احمد نے اپنی تمام غلطیوں کا اعتراف کیا اور وعدہ کیا کہ اب وہ ان کا احترام کرے گا۔
اس دن کے بعد احمد مکمل طور پر بدل گیا۔ وہ ماں کے کاموں میں مدد کرتا، باپ کی دیکھ بھال کرتا اور پڑھائی پر پوری توجہ دیتا۔ گھر میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ ایک سال بعد احمد نے اپنی محنت سے اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا۔ اس کے والدین بہت خوش تھے۔ تقریب میں احمد نے کہا، امی، ابّو، آپ کی قربانیوں کے بغیر یہ دن ممکن نہ تھا۔
میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ ماں کے آنسو نکل آئے۔ باپ نے اسے گلے لگا لیا۔ اس دن احمد نے سچ میں سیکھ لیا کہ والدین کی محنت اور محبت کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے۔ جو لوگ اپنے گھر والوں کی ناشکری کرتے ہیں، وہ آخرکار پچھتاتے ہیں۔ زندگی میں سب سے قیمتی چیز والدین کی دعائیں ہیں، اور انہیں کبھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔
سبق: اپنے والدین کی قدر کریں، ان کی محنت اور محبت کو کبھی معمولی نہ سمجھیں۔ حقیقی کامیابی ان کی دعاؤں اور خوشیوں میں پوشیدہ ہے۔