ایک اونچے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر، جہاں اکثر بادل چھائے رہتے تھے اور ہوا سنسناتی تھی، ایک ایسا غار واقع تھا جس کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور تھیں۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ یہ غار وقت کے بہاؤ کو بدلنے کی غیر معمولی طاقت رکھتا ہے، ایک ایسا دروازہ جو ماضی کی گلیوں اور مستقبل کی راستوں کی طرف کھلتا ہے۔ اس غار تک رسائی انتہائی دشوار گزار تھی۔
خطرناک پہاڑی راستے، گہری کھائیاں اور اچانک بدلتا موسم اس کی طرف بڑھنے والوں کے قدم روک دیتے تھے۔ لیکن اس غار کا حقیقی راز صرف وہی جان سکتا تھا جو ان تمام مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے اس کے اندر قدم رکھنے کی جرأت کرتا۔ انہی قصوں اور روایتوں کے درمیان، ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا جس کے دل میں تلاش اور نئی باتیں جاننے کی شدید خواہش تھی۔ اس کا نام فرید تھا۔
فرید نے جب اس غار کے بارے میں سنا، تو اس کے دل میں ایک بے قابو خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس تک پہنچے اور اس کے راز سے پردہ اٹھائے۔ اس نے اپنے گاؤں کے بزرگوں سے اس غار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں، ان کے بتائے ہوئے دشوار گزار راستوں کا نقشہ اپنے ذہن میں محفوظ کیا اور ایک صبح سویرے، جب سورج کی پہلی کرنیں پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھو رہی تھیں، فرید نے اس نامعلوم سفر پر قدم رکھ دیا۔
وہ اپنے گاؤں سے دور، ایک پتھریلے اور دشوار گزار پہاڑی راستے پر تنہا چلتا رہا۔ راستے میں اسے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہیں تیز ڈھلوان تھی جس پر پھسلنے کا خطرہ تھا، تو کہیں باریک راستے تھے جن پر قدم جما کر چلنے کی ضرورت تھی۔ جنگلی جانوروں کی آوازیں اسے ڈرانے کی کوشش کرتی رہیں، اور موسم بھی کئی بار اچانک بدل گیا، کبھی تیز بارش تو کبھی تپتی دھوپ اس کے عزم کو کمزور کرنے لگی۔
لیکن فرید نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کا شوق اور غار کے راز کو جاننے کی تڑپ ہر خوف اور مشکل پر غالب آتی رہی۔ کئی دنوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد، جب اس کے پاؤں تھک چکے تھے اور جسم پسینے سے ڈوبا ہوا تھا، آخرکار وہ اس غار کے سامنے پہنچ گیا۔ غار کا منہ ایک تاریک سوراخ کی طرح نظر آ رہا تھا، جس کے اندر ایک نامعلوم دنیا چھپی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ فرید نے ایک گہری سانس لی اور اپنے دل کو مضبوط کر کے غار کے اندر قدم رکھ دیا۔
غار کے اندر داخل ہوتے ہی، فرید کو ایک عجیب و غریب اور ہلکی سی روشنی نظر آئی۔ یہ روشنی کسی عام چراغ کی نہ تھی، بلکہ ایک عجیب و غریب نور تھا جو غار کی گہرائیوں سے نمودار ہو رہا تھا۔ جیسے ہی فرید اس روشنی کی طرف بڑھا، ایک ناقابل بیان قوت نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا اور ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی اور جہان میں کھینچا جا رہا ہو۔ ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھیں بند ہوگئیں، اور پھر سب کچھ دھندلا گیا۔
جب اس کی آنکھیں دوبارہ کھلیں، تو اس نے اپنے آپ کو ایک بالکل مختلف اور پرانے زمانے میں پایا۔ وہ جس جگہ پر کھڑا تھا، وہ ایک چھوٹا سا اور پرسکون گاؤں دکھائی دیتا تھا۔ وہاں کے لوگ سادہ اور روایتی لباس پہنے ہوئے تھے، اور ان کی زندگی آج کے دور کی تیز رفتاری اور پیچیدگیوں سے بہت دور، انتہائی سادہ اور پرسکون تھی۔ گھر مٹی اور لکڑی سے بنے ہوئے تھے، اور سڑکیں کچی تھیں۔
فرید نے دیکھا کہ لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہیں۔ کچھ کھیتوں میں کام کر رہے تھے، کچھ ہنر مندی میں مصروف تھے، اور بچے گلیوں میں کھیل رہے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس دور کے لوگوں کی زندگی میں ایک خاص طرح کی معصومیت اور سادگی بسی ہوئی تھی۔ نوجوان نے غور سے دیکھا کہ اس گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کس قدر محبت اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔
ہر کوئی دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتا تھا، اور باہمی بھائی چارے کا ماحول ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ اس گاؤں میں کوئی لالچ، کوئی نفرت، یا کوئی جھگڑے نہیں تھے۔ لوگوں کے دل صاف تھے اور ان کے رویوں میں خلوص جھلکتا تھا۔ فرید یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ کیا دنیا کی کوئی ایسی جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں انسان اس قدر امن اور محبت سے رہ سکتے ہیں۔
اس نے اپنے زمانے کی تیز رفتار اور خود غرضی سے بھری زندگی کا موازنہ اس پرسکون اور باہمی رواداری والے ماحول سے کیا اور گہرے سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ دنوں تک فرید اس پرانے زمانے کے گاؤں میں رہا۔ اس نے وہاں کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارا، ان کے طور طریقے سیکھے اور ان کی زندگی کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسے صبر کی اہمیت سکھائی کہ کس طرح ہر کام وقت لیتا ہے اور جلد بازی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اسے محنت کی عظمت بتائی کہ کس طرح اپنی روزی روٹی کمانے اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کرنا ضروری ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، انہوں نے اسے دوسروں کی مدد کرنے کی بے غرض اہمیت سکھائی کہ کس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور مشکل وقت میں ساتھ دینا انسانیت کی اصل روح ہے۔ فرید ان دنوں میں بہت خوش تھا کہ اس نے ایک ایسی انوکھی اور پرامن جگہ دریافت کی جہاں انسانیت کی اصل روح ابھی تک زندہ تھی۔
لیکن ایک دن، فرید کو اپنے گھر اور اپنے زمانے کی یاد ستانے لگی۔ اسے احساس ہوا کہ اس نے جو کچھ دیکھا اور سیکھا ہے، اسے اپنے لوگوں تک بھی پہنچانا چاہیے۔ اس نے اس پرانے زمانے کے لوگوں سے الوداع کہا اور اس غار کے پاس واپس آیا جس نے اسے یہاں تک پہنچایا تھا۔ اس نے ایک بار پھر غار کے تاریک منہ میں قدم رکھا۔
اس بار، جب وہ اس عجیب روشنی کے سامنے سے گزرا، تو اس نے خود کو مستقبل میں پایا۔ مستقبل کی دنیا اس نے جس ماضی کی دنیا دیکھی تھی، اس سے بالکل مختلف تھی۔ ہر طرف بلند و بالا اور چمکتی ہوئی عمارتیں تھیں جو آسمان کو چھو رہی تھیں۔ تیز رفتار اور بغیر ڈرائیور کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی تھیں، اور جدید ترین ٹیکنالوجی ہر کونے میں نظر آ رہی تھی۔ انسانوں کے پاس ایسے آلات تھے جو ان کی زندگی کو بہت آسان بنا دیتے تھے۔
لیکن اس ترقی کے باوجود، فرید نے ایک گہری اداسی محسوس کی۔ اس نے محسوس کیا کہ لوگ ایک دوسرے سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ ہر شخص اپنی ذات میں مگن تھا اور صرف اپنے بارے میں سوچتا دکھائی دیتا تھا۔ محبت، ہمدردی اور باہمی تعاون جیسے خوبصورت جذبات اس دنیا سے غائب ہو چکے تھے، یا کم از کم اس قدر کم ہو گئے تھے کہ انہیں پہچاننا مشکل تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو نظر انداز کر رہے تھے اور ان میں کوئی اپنائیت نہیں تھی۔
نوجوان یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ اس نے سوچا کہ کیا ترقی کا یہی مقصد تھا؟ کیا انسان نے اپنی تمام تر سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کے بدلے میں اپنی انسانیت کھو دی ہے؟ کیا مادی خوشحالی نے لوگوں کے دلوں کو خالی کر دیا ہے؟ وہ اس مستقبل کی بے روح دنیا سے گھبرا گیا اور فوراً واپس اس غار کی طرف بھاگا جس نے اسے یہاں پہنچایا تھا۔ وہ اس عجیب روشنی سے دوبارہ گزرا اور اپنے جانے پہچانے زمانے میں لوٹ آیا۔ اپنے گاؤں واپس پہنچ کر، فرید نے اپنے حیرت انگیز تجربات اپنے دوستوں اور گاؤں والوں کو تفصیل سے بتائے۔
اس نے انہیں اس پرانے زمانے کی سادگی، محبت اور باہمی تعاون کے بارے میں بتایا، اور مستقبل کی اس ترقی یافتہ لیکن ظالم دنیا کے بارے میں بھی بتایا۔ اس نے انہیں سمجھایا کہ ترقی اور جدیدیت یقیناً ضروری ہیں اور زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن ہمیں کبھی بھی اپنی انسانیت، اپنے اخلاقی اقدار اور ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہمدردی کے جذبات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ فرید کی کہانی نے گاؤں والوں کو گہری سوچ میں ڈال دیا اور انہیں اپنی زندگیوں اور اپنے رویوں پر غور کرنے کی ترغیب دی۔
سبق: وقت بدل سکتا ہے، لیکن مہربانی، محبت، اور انسانیت کے اصول ہمیشہ قائم رہنے چاہئیں۔ یہی زندگی کے اصل خزانے ہیں۔