ایک کپ مثالی چائے اور ایک خوشحال خاندان

0

 

Scene showing moral lesson from The Perfect Cup of Tea Urdu story

  ایک چھوٹے سے اور سرسبز گاؤں میں ایک خوشحال اور پیار کرنے والا خاندان رہتا تھا۔ اس گھر میں ایک سمجھدار ماں، ایک محنتی باپ، اور دو نہایت ہی پیارے اور شرارتی بچے تھے۔ گھر کا ماحول عام طور پر ہنسی اور خوشیوں سے گونجتا رہتا تھا، لیکن ایک ایسی چیز تھی جس نے گھر کے تمام افراد کو ہمیشہ کسی نہ کسی طرح پریشانی میں مبتلا رکھا ہوا تھا۔ وہ چیز تھی ان کے گھر کی روزانہ بننے والی چائے۔


 ہر صبح جب سورج اپنی سنہری کرنیں بکھیرتا، گھر کے تمام افراد ایک ساتھ ناشتے کی میز پر جمع ہوتے اور گرم گرم چائے کے پیالوں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے۔ لیکن اس چائے کا ذائقہ ہمیشہ ایک راز بنا رہتا تھا۔ کبھی وہ اتنی میٹھی ہوتی کہ پینے والے کا منہ شکر کی طرح میٹھا ہو جاتا، تو کبھی اس میں نمک کی ایسی مقدار ہوتی کہ زبان پر کڑواہٹ کا احساس ہوتا۔ کبھی چائے میں دودھ کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی کہ وہ محض گرم دودھ کا پیالہ محسوس ہوتی، تو کبھی اس میں پانی کا غلبہ اتنا ہوتا کہ وہ پتلی اور بے رنگ لگتی۔


 گھر کے سب افراد اس عجیب و غریب صورتحال سے اندر ہی اندر پریشان تھے، لیکن کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی واضح اور قابل عمل حل موجود نہیں تھا۔ وہ ہر روز ایک نئی امید کے ساتھ چائے پیتے اور ہر بار پہلے سے بھی زیادہ حیران اور مایوس ہوتے۔ ایک دن، جب ناشتے کی میز پر پھر سے اسی نایاب ذائقے والی چائے کے پیالے رکھے گئے، تو گھر کے سب سے چھوٹے اور ذہین بچے نے ایک معصومانہ لیکن دانشمندانہ سوال اٹھایا۔


 اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے سب کو دیکھتے ہوئے کہا، کیوں نہ اس بار ہم سب مل کر چائے بنائیں؟ شاید ہم سب کے مل کر کام کرنے سے ہمیں اس کا صحیح اور مزیدار ذائقہ مل جائے۔ بچے کی یہ تجویز سب کو بے حد پسند آئی۔ ماں نے فوراً حامی بھری اور پیار سے کہا، یہ تو بہت اچھی بات ہے، میرے پیارے بچے۔ ٹھیک ہے، ہم سب مل کر چائے بنائیں گے، لیکن اس کے لیے ہر کسی کو اپنا اپنا کام ذمہ داری سے کرنا ہوگا۔


 میں چولہا جلاؤں گی اور دیگچی میں پانی ڈالوں گی، تم جلدی سے تازہ دودھ لے آؤ، اور تمہارے ابو جائیں گے اور کیتلی میں پانی گرم کریں گے۔ بچے خوشی سے اچھل پڑے اور فوراً اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ ماں نے جلدی سے چولہا روشن کیا اور اس پر چائے بنانے والی دیگچی رکھ دی۔ بچے بھاگ کر تازہ دودھ لے آئے۔ باپ نے بھی پانی گرم کرنے والی الیکٹرک کیتلی میں پانی ڈالا اور اسے گرم کرنے کے لیے آن کر دیا۔ 


جب سب چیزیں تیار ہو گئیں، تو ماں نے سب کو ایک ساتھ جمع کیا اور کہا، اب ہم سب مل کر اس چائے کو بنائیں گے جس کا ذائقہ ہمیشہ اتنا عجیب ہوتا ہے۔ سب نے جوش و خروش سے اپنے اپنے کام شروع کر دیے۔ ماں نے دیگچی میں مناسب مقدار میں بہترین چائے کی پتی ڈالی اور اسے ہلکی آنچ پر پکنے دیا۔ بچوں نے احتیاط سے تازہ دودھ ایک پیالے میں نکالا اور اسے دیگچی میں ڈالنے کے لیے تیار رکھا۔


 اور باپ نے گرم پانی کیتلی سے نکال کر ایک طرف رکھ لیا۔ جب چائے کی پتی اچھی طرح ابل گئی اور اس کی خوشبو پورے گھر میں پھیل گئی، تو ماں نے کہا، اب دودھ ڈالنے کی باری ہے۔ بچوں نے آہستہ آہستہ اور احتیاط سے دودھ دیگچی میں ڈالا۔ اس کے بعد باپ نے چینی کا ڈبہ اٹھایا اور اپنی مرضی کے مطابق چینی ڈالنے لگا۔ لیکن اس بار ہر کوئی بہت ذمےدار تھا کہ کوئی غلطی نہ ہو۔ 


جب چائے مکمل طور پر تیار ہو گئی اور اس کی ہلکی ہلکی خوشبو سب کی ناک سے ٹکرائی، تو سب نے ایک ساتھ اپنے اپنے پیالوں میں چائے ڈالی اور پہلا گھونٹ پینے کے لیے پرجوش ہو گئے۔ لیکن جب انہوں نے چائے کا پہلا گھونٹ لیا، تو سب کے چہروں پر حیرت اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ چائے کا ذائقہ پہلے سے بھی زیادہ عجیب اور ناقابل قبول تھا۔ ماں نے فوراً کہا، ارے یہ تو بہت زیادہ میٹھی ہے۔


 ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے اس میں پورا شکر دان ڈال دیا ہو۔ بچوں نے فوراً احتجاج کیا، نہیں، ماں! یہ بالکل بھی میٹھی نہیں ہے۔ یہ تو نمکین ہے! کیا کسی نے غلطی سے اس میں نمک ڈال دیا ہے؟ اور باپ نے اپنا پیالہ نیچے رکھتے ہوئے کہا، مجھے تو یہ بالکل بے ذائقہ لگ رہی ہے! نہ اس میں مٹھاس ہے اور نہ ہی نمکین پن۔ یہ تو محض گرم پانی اور دودھ کا ملاپ ہے۔ پہلی کوشش کی ناکامی کے بعد، سب نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک بار پھر کوشش کریں گے۔ 


اس بار انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بدل دیں۔ ماں نے چینی کا ڈبہ سنبھالا، بچوں نے پانی لایا، اور باپ نے دودھ کا پیالہ سنبھالا۔ لیکن نتیجہ پہلے جیسا ہی نکلا۔ چائے کا ذائقہ پہلے سے بھی زیادہ خراب اور ناقابل برداشت تھا۔ کسی کو وہ بہت کڑوی لگی، کسی کو بہت کھٹی، اور کسی کو بالکل ہی بے مزہ۔ تین بار مسلسل کوشش کرنے کے بعد، گھر کے سب افراد بری طرح تھک گئے اور ان کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔


 ماں نے اداسی سے کہا، شاید ہم سب مل کر بھی کبھی اچھی چائے نہیں بنا سکتے۔ لگتا ہے چائے بنانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن بچوں نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ چھوٹے بچے نے اپنی معصومیت سے کہا، نہیں، ماں! ہم سب مل کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ سنا ہے کہ اتحاد میں برکت ہے۔ ہمیں اتنی جلدی ہار نہیں ماننی چاہیے۔ بڑے بچے نے بھی اس کی تائید کی اور کہا، ہاں ماں! ہمیں ایک اور موقع دینا چاہیے۔ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔


 باپ نے بھی بچوں کی ہمت افزائی کی اور کہا، تم دونوں ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ہمیں ہار نہیں ماننی چاہیے، لیکن ہمیں اپنی حکمت عملی میں کچھ تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں ایک نئے طریقے سے سوچنا ہوگا۔ سب نے مل کر ایک نئی حکمت عملی بنائی۔ اس بار انہوں نے اپنی پرانی ترتیب پر ہی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماں چائے پتی ڈالے گی، بچے دودھ ڈالیں گے، اور باپ چینی ڈالے گا۔ لیکن اس بار ہر کسی نے اپنے اپنے کام کو انتہائی احتیاط، توجہ اور ذمہ داری کے ساتھ کرنے کا عہد کیا۔


 ماں نے بہترین معیار کی چائے پتی کو صحیح مقدار میں دیگچی میں ڈالا اور اسے مناسب وقت تک اچھی طرح ابالا تاکہ اس کا بہترین ذائقہ نکل آئے۔ بچوں نے تازہ اور خالص دودھ کو بالکل صحیح مقدار میں ناپ کر دیگچی میں ڈالا، نہ کم اور نہ زیادہ۔ اور باپ نے چینی کو ایک چمچ میں ناپ کر ڈالا، بالکل اتنی جتنی سب کو پسند تھی۔ جب چائے مکمل طور پر تیار ہو گئی اور اس کی دلکش خوشبو نے پورے گھر کو مہکا دیا، تو سب نے ایک ساتھ اپنے اپنے پیالوں میں چائے ڈالی اور ایک بار پھر امید بھرے دلوں کے ساتھ پہلا گھونٹ پیا۔


 اس بار چائے کا ذائقہ بالکل شاندار تھا۔ وہ نہ بہت میٹھی تھی، نہ نمکین، اور نہ ہی بے ذائقہ۔ اس کا ذائقہ اتنا مزیدار تھا کہ سب کے چہروں پر اطمینان اور مسکراہٹ پھیل گئی۔ ماں نے خوشی سے کہا، واہ! یہ تو واقعی بہت مزیدار ہے۔ آخرکار ہم نے کر دکھایا! بچوں نے بھی جوش و خروش سے کہا، ہاں ماں! یہ بالکل صحیح ذائقہ ہے۔ ہم نے آخرکار اس کا راز پا لیا! اور باپ نے اپنا پیالہ اٹھاتے ہوئے کہا، بالکل! یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر ہم مل کر کام کریں تو کوئی بھی مشکل ناممکن نہیں ہے۔


 اس دن کے بعد، اس خوشحال گھر میں ہر صبح چائے کا وقت سب سے زیادہ خوشگوار ہوتا تھا۔ سب کو یہ گہرا احساس تھا کہ جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں، تو وہ کسی بھی مشکل کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ چائے بنانا ہو یا زندگی کے کسی اور مشکل کام کو حل کرنا، وہ سب مل کر ہر رکاوٹ پر قابو پا سکتے ہیں۔ اور اس طرح، ان کی نایاب ذائقے والی چائے ان کے اتحاد، محبت اور مشترکہ کوششوں کی ایک مزیدار علامت بن گئی۔


سبق: ہر مشکل میں خاندان کے قریب ہونے کا موقع ہوتا ہے۔ منزل سے زیادہ سفر اہم ہوتا ہے۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)