آزادی کی شمع مولوی احمد اللہ شاہ

0

Scene showing moral lesson from The Flame of Freedom Maulavi Ahmadullah Shah Urdu story

سال 1857 تھا، برصغیر ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف غم و غصے کی ایک ایسی تیز لہر اٹھی ہوئی تھی جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ہر طرف بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی، اور ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ان دلیر اور جانباز رہنماؤں میں سے ایک نمایاں نام مولوی احمد اللہ شاہ کا تھا، جنہیں عام لوگ محبت اور احترام سے صرف مولوی کے نام سے پکارتے تھے۔

 ان کی شخصیت میں علم و حکمت کا ایک گہرا سمندر بہتا تھا اور ان کا دل حب الوطنی کے جذبے سے بھرا ہوا تھا۔ مولوی احمد اللہ شاہ، جو کہ فیض آباد کے ایک نہایت ہی قابل اعتماد اور عالم دین تھے، اپنی تقریروں کے لیے مشہور تھے۔ ان کے الفاظ میں ایسا اثر اور درد تھا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ اور انگریزوں کے خلاف نفرت کا شعلہ بھڑکا دیتے تھے۔ وہ نہ صرف علم کے ایک وسیع دریا تھے، بلکہ وہ ایک بہادر اور نڈر جنگجو بھی تھے، جو وقت آنے پر میدان جنگ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ 

جب انگریزوں نے اپنی مکاری اور طاقت کے بل بوتے پر ہندوستان کی سرزمین پر اپنا قبضہ مضبوط کرنا شروع کیا، اور یہاں کے باشندوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے لگے، تو مولوی احمد اللہ شاہ نے خاموش تماشائی بنے رہنے سے انکار کر دیا۔ ان کے ضمیر نے انہیں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنی قوم کو بیدار کرنے پر مجبور کیا۔ ایک تاریخی دن، مولوی احمد اللہ شاہ نے فیض آباد کے تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ایک پرجوش خطاب کیا۔

 انہوں نے اپنے پرجوش اور درد بھرے لہجے میں کہا، اے میرے ہم وطنو! یہ ملک، یہ سرزمین ہمارا گھر ہے۔ یہ ہماری پہچان اور ہماری جاگیر ہے۔ اگر ہم اپنے گھر کو ان زبردستی قبضہ کرنے والوں سے بچانے کے لیے آج نہیں اٹھیں گے، تو پھر کب اٹھیں گے؟ انگریز ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں، وہ ہماری زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اور ہماری آنے والی نسلوں کو ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

 لیکن ہم انہیں یہ واضح طور پر بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ ابھی زندہ ہیں، اور وہ اپنی آزادی کے لیے آخری دم تک لڑنے کی طاقت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ مولوی صاحب کے یہ جوشیلے الفاظ سن کر لوگوں کے دلوں میں حب الوطنی کا ایک نیا جذبہ بیدار ہو گیا۔ ان کی رگوں میں خون گرم ہو گیا اور ان کی آنکھوں میں آزادی کی چمک دکھائی دینے لگی۔ مولوی احمد اللہ شاہ کی پرجوش قیادت میں، فیض آباد کے بہادر لوگوں نے غیر ملکی حکمرانوں، یعنی انگریزوں کے خلاف کھلے عام بغاوت کا اعلان کر دیا۔

 یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے نہ صرف فیض آباد بلکہ آس پاس کے علاقوں میں بھی آزادی کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ مولوی احمد اللہ شاہ نے اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی لیکن پرعزم فوج تیار کی۔ ان کے پاس انگریزوں کی طرح جدید اور خطرناک ہتھیار تو نہیں تھے، لیکن ان کا ایمانی جذبہ اور آزادی حاصل کرنے کا پختہ عزم کسی بھی ہتھیار سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔

 انہوں نے فیض آباد شہر کے گرد مضبوط مورچے بنا لیے اور اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کے لیے انگریز فوج کا انتظار کرنے لگے۔ ان کے دلوں میں نہ کوئی خوف تھا اور نہ ہی کوئی پیچھے ہٹنے کا خیال۔ وہ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن اپنی سر زمین کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کچھ ہی دنوں بعد، برطانوی فوج اپنے جدید ساز و سامان کے ساتھ فیض آباد کے قریب پہنچ گئی۔

 انہوں نے فیض آباد پر حملہ کرنے اور فیض آباد کے لوگوں کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک چھوٹے سے شہر کے عام لوگ اتنی غیر معمولی بہادری اور جرات کا مظاہرہ کریں گے۔ مولوی احمد اللہ شاہ اور ان کے جانباز ساتھیوں نے انگریز فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جنگ کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ مولوی احمد اللہ شاہ خود بھی گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں پہلی قطار میں لڑتے رہے اور اپنے ساتھیوں کو اپنی تقریروں اور بہادری سے مسلسل ہمت دلاتے رہے۔

 ان کی قیادت میں لڑنے والے ہر سپاہی کے اندر وطن کی محبت کا ایک ایسا جوش تھا جس کے سامنے انگریزوں کی جدید بندوقیں بھی بے اثر دکھائی دے رہی تھیں۔ انگریزوں کو یہ ہرگز توقع نہیں تھی کہ ایک چھوٹے سے شہر کے لوگ اتنی بہادری سے لڑیں گے۔ انہیں اپنی پیش قدمی روکنی پڑی اور آخرکار، انہیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔

 فیض آباد کے لوگوں نے اس شاندار فتح پر خوشی سے نعرے لگائے اور اپنے محبوب رہنما مولوی احمد اللہ شاہ کو گلے لگا کر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ یہ فتح ایک ایسی مثال بن گئی جس نے دوسرے علاقوں کے لوگوں کو بھی انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دی۔ لیکن انگریز اتنی آسانی سے ہار ماننے والے نہیں تھے۔ انہوں نے ایک نئی چال چلی۔ انہوں نے مولوی احمد اللہ شاہ کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے ایک بہت بڑی رقم کا انعام مقرر کیا۔

 لالچ ایک ایسی بری بلا ہے جو بعض اوقات اچھے اچھوں کے ایمان کو بھی ڈگمگا دیتی ہے۔ کچھ غدار، جن کے دلوں میں دولت کی لالچ اور وطن فروشی کا زہر بھرا ہوا تھا، اس بھاری انعام کے لالچ میں آ گئے اور انہوں نے مولوی احمد اللہ شاہ کے بارے میں انگریزوں کو خفیہ معلومات فراہم کر دیں۔ ایک تاریک رات، جب مولوی احمد اللہ شاہ اپنے چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ انگریزوں کی نظروں سے بچتے ہوئے ایک گھنے جنگل میں پناہ لے رہے تھے، غداروں کی نشاندہی پر انگریز فوج نے انہیں گھیر لیا۔ 

مولوی احمد اللہ شاہ نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر بہادری سے مقابلہ کیا، لیکن ان کے پاس نہ تو جدید ہتھیار تھے اور نہ ہی ان کے ساتھیوں کی تعداد انگریز فوج کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتی تھی۔ آخرکار، ایک طویل اور خونی مقابلے کے بعد، انگریزوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ انگریزوں نے مولوی احمد اللہ شاہ کو سخت اور اذیت ناک سزائیں دیں تاکہ وہ اپنے مقصد سے ہٹ جائیں اور دوسرے آزادی کے متوالوں کے لیے ایک عبرت بن سکیں۔

 لیکن وہ ان کے مضبوط عزم اور غیر معمولی ایمان کو توڑنے میں ناکام رہے۔ مولوی صاحب نے اپنی آخری سانسوں تک انگریزوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا، تم میرا جسم توڑ سکتے ہو، مجھے اذیتیں دے سکتے ہو، لیکن تم میرے دل میں موجود آزادی کے لازوال جذبے کو کبھی ختم نہیں کر سکتے۔ ہندوستان ضرور آزاد ہو گا، اور تمہارے ظلم و جبر کا راج ایک دن ضرور ختم ہو جائے گا۔  آخرکار، انگریزوں نے اس عظیم مجاہد آزادی، مولوی احمد اللہ شاہ کو پھانسی دے دی۔

 لیکن ان کی شہادت نے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی ایک ایسی آگ بھڑکا دی جو کبھی بجھ نہ سکی۔ ان کی عظیم قربانی نے 1857 کی جنگ آزادی کو ایک نئی طاقت اور ایک نیا ولولہ بخشا۔ مولوی احمد اللہ شاہ اگرچہ اس جنگ میں اپنی جان قربان کر گئے، لیکن ان کی بہادری، ان کے عزم اور ان کی حب الوطنی کی داستانیں ہمیشہ ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی رہیں گی اور آنے والی نسلوں کو آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی رہیں گی۔

سبق: آزادی کبھی تحفے میں نہیں ملتی، یہ قربانی اور پختہ عزم سے حاصل ہوتی ہے۔ حقیقی ہمت والے وہ ہیں جو حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)