ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں زندگی اپنی ہی مست رفتار میں رواں دواں تھی اور لوگوں کے پاس فارغ وقت میں سوچنے کے لیے بہت کچھ ہوتا تھا، ایک ایسا شخص رہتا تھا جو ہمیشہ عجیب و غریب اور انوکھے خیالات کی گہری وادیوں میں گم رہتا تھا۔ اس کا دماغ ہر وقت نئی نئی ایجادات اور دلچسپ منصوبے بناتا رہتا تھا۔ ایک دن، جب وہ اپنے باغیچے میں بیٹھا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا، اسے ایک نہایت ہی شاندار اور انقلابی خیال آیا۔
اس نے سوچا، کیوں نہ ایک ایسا جادوئی پھل بنایا جائے جو ہر اس شخص کو خوش کر دے جو اسے کھائے! ایک ایسا پھل جو غمزدہ دلوں کو مسکراہٹیں بخشے اور روتے ہوئے چہروں پر قہقہے لے آئے- اس خیال کے آتے ہی اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہو گئی اور وہ جوش و خروش سے بھر گیا۔ اپنے اس عظیم الشان منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ فوراً جنگل کی طرف روانہ ہو گیا، جو اس کے گاؤں کے قریب ہی واقع تھا۔
وہ ایک ایسے عجیب و غریب درخت کی تلاش میں تھا جس کے بارے میں اس نے پرانی لوک کہانیوں میں سن رکھا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اس درخت پر ایسے انوکھے پھل لٹکتے ہیں جن میں جادوئی خصوصیات ہوتی ہیں۔ کافی تلاش کے بعد، اسے آخرکار وہ درخت مل ہی گیا! اس درخت پر واقعی بہت سے رنگ برنگے اور عجیب و غریب شکلوں کے پھل لٹک رہے تھے۔
اس نے احتیاط سے ان میں سے ایک سب سے زیادہ چمکدار اور پرکشش پھل توڑا اور خوشی خوشی اپنے گھر واپس آ گیا، لیکن وہ اس بات سے بالکل بے خبر تھا کہ یہ خوبصورت نظر آنے والا پھل ایک ایسی خاصیت رکھتا ہے جو اسے کھانے والے کی زبان کو چپکا دیتا ہے! یہ ایک ایسی خفیہ اور ناگوار خصوصیت تھی جس سے وہ بالکل ناواقف تھا۔ اگلے دن، اس پرجوش شخص نے اپنے اس پھل کی رونمائی کے لیے گاؤں میں ایک بہت بڑی اور شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔
اس نے گاؤں کے تمام لوگوں کو بڑے اشتیاق سے بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے، تو اس نے اپنے اس جادوئی پھل کی شاندار داستان سنائی اور بڑے یقین سے کہا، میرے پیارے گاؤں والو! آج میں آپ کے لیے ایک ایسا انوکھا پھل لایا ہوں جو آپ سب کو بے حد خوش کر دے گا! اسے کھاتے ہی آپ کے تمام غم دور ہو جائیں گے اور آپ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے۔
سب لوگ حیرت اور تجسس سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، ان کے ذہنوں میں اس جادوئی پھل کے بارے میں ہزاروں سوالات گردش کر رہے تھے۔ جب دعوت شروع ہوئی اور کھانے پینے کا دور چلا، تو سب لوگوں نے اس عجیب و غریب پھل کو بھی چکھنے کی ہمت کی۔ لیکن جیسے ہی پھل ان کی زبانوں سے چھوا، اچانک ایک نہایت ہی مزاحیہ اور عجیب بات پیش آئی۔
اس جادوئی پھل کے اثر سے سب کی زبانیں بری طرح چپک گئیں اور وہ ایک لفظ بھی بولنے کے قابل نہ رہے! ہر کوئی ایک دوسرے کی بے بسی اور خاموشی کو دیکھ کر دل ہی دل میں ہنسنے لگا، لیکن اس ہنسی کو باہر نکالنے کا کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ ان کی زبانیں تو بند تھیں۔ چند لمحات کی اس خاموشی کے بعد، ایک بوڑھے آدمی نے ہمت کر کے اپنی چپکی ہوئی زبان کو ہلانے کی کوشش کی، اس نے بمشکل ایک چیختی ہوئی آواز میں کہا، یہ یہ کیا ہوا؟ ہم سب خاموش کیوں ہیں؟
یہ سن کر باقی سب لوگ اور بھی زیادہ زور سے ہنسنے لگے، ان کی آنکھوں سے ہنسی کے آنسو نکل آئے، لیکن ان کے ہونٹ بدستور بند تھے۔ یہ ایک ایسا مزاحیہ منظر تھا کہ دیکھنے والا اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔ پھر اس خاموش تماشے کے دوران، ایک چھوٹے سے بچے نے، جس کی زبان بھی پھل کے اثر سے چپک گئی تھی، اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے سب کو دیکھا اور ایک ایسی بات کہی جو سب کے دل میں اتر گئی۔
اگرچہ وہ اس بات بول نہیں سکا، لیکن اس کے اشارے سب سمجھ گئے۔ اس نے اشاروں میں کہا، شاید یہ پھل ہمیں صرف ہنسانے کے لیے ہے! یہ سن کر سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اگرچہ ان کے بند ہونٹوں سے کوئی آواز نہ نکلی مگر وہ اپنی اس خاموش ہنسی پر کسی بھی صورت قابو نہ پا سکے۔ ان کی یہ بے بسی اور خاموشی ایک مزاحیہ تماشہ بن گئی تھی۔
اس مزاحیہ شخص کو آخرکار احساس ہوا کہ اس کا پھل حقیقت میں سب کو خوش تو کر رہا ہے، مگر زبانیں چپک جانے کی وجہ سے کوئی بھی اپنی اس خوشی کا اظہار نہیں کر پا رہا تھا۔ اس نے بھی ہنستے ہوئے اپنی چپکی ہوئی زبان کے ساتھ بمشکل کہا، یہ تو واقعی کمال کا پھل ہے! لیکن بولنے کی طاقت واپس لینے کے لیے ہمیں اس پھل کے ساتھ کچھ اور کھانا ہوگا۔
سب لوگوں نے اس کی بات کو سمجھ لیا اور پھر سب نے مل کر باقی کھانا کھانا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد، اس عجیب و غریب پھل کا اثر ختم ہو گیا، سب کی زبانیں آزاد ہو گئیں، اور پھر سے سب لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے، اس دن کے مزاحیہ واقعات پر ہنس رہے تھے۔ وہ دن گاؤں والوں کے لیے ایک یادگار لمحہ بن گیا۔
اس کے بعد اس شخص نے پھر کبھی اس طرح کا کوئی خاموش کرنے والا پھل بنانے کا ارادہ نہیں کیا، بلکہ اس نے اپنی دلچسپ کہانیوں اور مزاح سے ہی سب کو خوش رکھنا شروع کر دیا۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ ہنسانے کے لیے ہمیشہ عجیب و غریب پھلوں کی ضرورت نہیں ہوتی، کبھی کبھی ایک اچھی کہانی بھی کافی ہوتی ہے۔
سبق: غیر متوقع حالات بھی ہنسی اور خوشی لا سکتے ہیں۔ حیرتوں کو قبول کریں، کیونکہ یہ اکثر خوشگوار لمحات کی طرف لے جاتی ہیں۔