ایک چور کے بدلتے راستوں کا سفر

0

 

Scene showing moral lesson from A Thief's Journey of Changing Paths Urdu story

ایک پرسکون اور دلکش شہر تھا، جہاں وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا اور زندگی اپنی سادگی میں خوبصورت تھی۔ ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا، لوگ اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں خوش و خرم تھے اور راتوں کو جب آسمان پر چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا تھا تو وہ اپنے گھروں میں گہری نیند سوتے تھے۔ 


اس شہر کی فضا میں ایک اپنائیت تھی، جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے تھے۔ لیکن اس پرسکون شہر کی خوشیوں کا دشمن ایک چور تھا، جو رات کی تاریکی میں گھومتا اور لوگوں کا قیمتی چراتا تھا۔ یہ چور شہر کے ہر گھر کی رگ رگ سے واقف تھا۔ اس کے پاس وہ تمام خفیہ معلومات تھیں جو ایک پیشہ ور چور کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔


 وہ جانتا تھا کہ شہر کے کس حصے میں کون رہتا ہے، کس کے گھر میں کتنی قیمتی اشیاء موجود ہیں، اور کس گھر کا دروازہ کب کھلتا اور بند ہوتا ہے۔ اس کا دماغ ایک تیز دھار آلے کی طرح کام کرتا تھا اور اس کے ہاتھ اتنے ماہر تھے کہ وہ ہمیشہ اپنے کام کو انتہائی باریکی سے اور بغیر کسی نشان کے مکمل کرتا تھا۔


 اس کی حرکتیں اتنی خاموش تھیں کہ جیسے رات کی ہوا خود اس کی مدد کر رہی ہو۔ ایک تاریک رات، جب پورا شہر گہری نیند سو رہا تھا، وہ چور ایک گھر کی طرف بڑھا جس کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا، ایک طرف کامیابی کی امید تھی تو دوسری طرف پکڑے جانے کا ہلکا سا خوف۔


 وہ جانتا تھا کہ آج رات وہ ایک بہت بڑا اور قیمتی خزانہ چرانے جا رہا ہے۔ اس گھر میں ایک ایسا بزرگ شخص رہتا تھا جس کے بارے میں شہر کے لوگ باتیں کرتے تھے کہ اس کے پاس ایک قدیم اور انمول خزانہ ہے، جو اس نے اپنی زندگی بھر کی محنت اور کفایت شعاری سے جمع کیا تھا۔ یہ خزانہ صرف سونے چاندی کے سکوں اور قیمتی جواہرات پر ہی مشتمل نہیں تھا، بلکہ اس میں کچھ ایسی یادگاریں بھی تھیں جو اس بزرگ کے خاندانی ورثے کا حصہ تھیں۔


 چور نے اپنی برسوں کی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے کھڑکی کو آہستگی سے کھولا اور ایک سائے کی طرح کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔ کمرے میں چاند کی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی، جو ہر چیز کو ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھی۔ اس کی تربیت یافتہ نظریں فوراً کمرے کے ایک کونے میں رکھے ہوئے ایک مضبوط صندوق کی طرف اٹھیں، جہاں وہ قیمتی خزانہ محفوظ تھا۔ 


اس نے احتیاط سے صندوق کے قریب پہنچ کر اس کا تالا کھولا، اس کے اندر جھانکا اور اپنی آنکھوں کے سامنے چمکتے ہوئے سونے کے سکوں کو دیکھ کر اس کا دل ایک لمحے کے لیے رک سا گیا۔ لالچ کی ایک تیز لہر اس کی رگوں میں دوڑ گئی۔ اس نے صندوق میں موجود تمام قیمتی اشیاء کو اپنے تھیلے میں ڈالنا شروع کر دیا۔


 چور کے دل کی دھڑکن مزید تیز ہو گئی، لیکن وہ جانتا تھا کہ اس وقت کسی بھی قسم کی جلد بازی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس نے اپنا سارا سامان اکٹھا کیا اور اسی راستے سے خاموشی سے واپس جانے کا فیصلہ کیا جس سے وہ آیا تھا۔ مگر جیسے ہی وہ احتیاط سے دروازے کے قریب پہنچا، اچانک دروازہ کھل گیا اور سامنے وہ بزرگ شخص کھڑا تھا، جس کی آنکھوں میں حیرت اور کچھ مایوسی کے آثار نمایاں تھے۔ 


وہ بزرگ اسے فوراً پہچان گیا۔ چور نے ایک لمحے کے لیے گھبرا کر اپنی آنکھوں میں غصہ بھرا اور ایک دھمکی آمیز انداز میں قدم بڑھایا، مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی حرکت کر پاتا، بزرگ نے اسے ایک پرسکون لیکن پر اثر دار آواز میں روکتے ہوئے کہا، نوجوان، تمہارا اصل کام چھپ کر چوری کرنا نہیں، بلکہ وہ چیزیں واپس کرنا ہے جو تمہاری نہیں ہیں۔


 بزرگ کی آواز میں کوئی غصہ نہیں تھا، بلکہ ایک درد بھری نصیحت تھی۔ چور نے ایک مذاق اڑانے والی ہنسی ہنستے ہوئے کہا، تمھیں کیا لگتا ہے؟ کہ میں تمہاری ان کھوکھلی باتوں میں آجاؤں گا؟ میں ایک چور ہوں، اور ایک چور ہمیشہ بچ نکلنے کا راستہ جانتا ہے۔ تم مجھے روک نہیں سکتے۔ اس کی آواز میں تکبر اور لاپرواہی تھی۔ بزرگ نے ایک گہری نظر اس کی طرف ڈالی اور کہا، تم ایک دن اپنی اس زندگی کا حساب ضرور دو گے۔


 یاد رکھو، جو چیز تمھارے لیے جائز نہیں ہے، جو چیز تم نے دوسروں سے چھینی ہے، وہ تمھارے لیے کبھی سکون اور خوشی نہیں لے کر آئے گی۔ یہ مال عارضی ہے اور اس کے پیچھے ہمیشہ ایک بے چینی اور خوف چھپا رہتا ہے۔ چور کی نظریں غصے سے بھڑک اٹھیں، لیکن اگلے ہی لمحے کچھ عجیب سا ہوا۔ 


اس کے دل میں ایک تیز اور کڑوا درد اٹھا، جیسے کوئی اندر سے اسے اس غلط کام سے روک رہا ہو۔ ایک لمحے کے لیے اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔ اس نے خود سے پوچھا، کیا یہ سچ ہے؟ کیا وہ چیزیں جو میں چراتا ہوں، واقعی میری نہیں ہیں؟ کیا ان سے مجھے کبھی حقیقی خوشی ملی ہے؟ یہ سوال اس کے ضمیر کی طرف سے ایک سزا تھا۔ 


ایک غیر متوقع حرکت کرتے ہوئے، چور نے اپنے تھیلے سے چوری کیا ہوا سارا سامان نکالا اور اسے واپس صندوق میں رکھ دیا۔ اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایاں تھے۔ اس کا دل ابھی بھی غمگین تھا، لیکن اس میں ایک نئی قسم کی جدوجہد شروع ہو گئی تھی۔ وہ بزرگ صرف ایک عام شخص نہیں تھا، بلکہ وہ ایک زندہ سبق تھا، ایک ایسی آئینہ جو اس چور کی زندگی کے تمام غلط فیصلوں اور تاریک راستوں کو ظاہر کر رہا تھا۔ 


اسی لمحے، چور نے ایک بڑا اور زندگی بدلنے والا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے دل میں عہد کیا کہ وہ اب کبھی چوری نہیں کرے گا۔ اس نے اپنی زندگی کے راستے کو مکمل طور پر بدلنے کی ٹھانی۔ اس دن کے بعد، اس چور کا دل سچ میں بدل گیا۔ اس نے شہر میں ایمانداری کے ساتھ مختلف کام کرنا شروع کر دیے۔ 


ابتدا میں اس کے لیے یہ سب بہت مشکل تھا، کیونکہ اس کے اندر وہ پرانا چور ابھی بھی موجود تھا جو اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کی تکلیف پر بھی خوش ہو جاتا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس نے اپنی مضبوط قوتِ ارادی اور پختہ عزم سے اپنی زندگی کے ان تمام غلط اور تاریک راستوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔


 آہستہ آہستہ اسے یہ پتہ چلا کہ حقیقت میں سکون اور حقیقی خوشی صرف دوسروں کے ساتھ ایمانداری، محبت اور ہمدردی سے جڑ کر آتی ہے، نہ کہ چوری یا دھوکہ دہی کرنے سے۔ اس نے محنت اور ایمانداری کی قدر کو سمجھا اور ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ چند ہی مہینوں بعد، وہ شخص جو کبھی اس شہر کا بدنام ترین چور تھا، اپنی محنت، ایمانداری اور نیک نیتی کی بدولت ایک کامیاب کاروباری شخص بن گیا۔ 


اس کے پاس اب نہ صرف وافر مقدار میں پیسہ تھا، بلکہ وہ ایک پرسکون اور عزت کی زندگی بھی گزار رہا تھا۔ اب اس نے اپنی محنت اور ایمانداری سے اپنی زندگی کی تاریک راتوں کو ایک روشن صبح میں بدل دیا تھا۔ اس کی کہانی شہر کے لوگوں کے لیے ایک عبرت اور ایک مثال بن گئی کہ اگر انسان چاہے تو اپنی زندگی کو کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔


سبق: جو چیز ہماری نہیں ہوتی، وہ کبھی ہمیں سکون نہیں دیتی۔ ایمانداری اور محنت سے ہی حقیقی سکون اور کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)