سورج اپنی آخری سنہری کرنوں کو سمیٹ رہا تھا اور ایک گہرا اندھیرا آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ باہر کی دنیا تاریکی کی چادر اوڑھ رہی تھی، اور گھر کے اندر، ایک کمرے میں، ایک ایسی خاموشی چھائی ہوئی تھی جو بظاہر تو سکون کی علامت تھی، لیکن درحقیقت وہ ایک حالیہ طوفان کے بعد کی خاموشی تھی۔ فضا میں ابھی بھی اس طوفان کے آثار موجود تھے جو کچھ دیر پہلے اس کمرے میں برپا ہوا تھا۔
کچھ ناگوار لمحات قبل، اس کمرے کی پرسکون فضا ایک زوردار بحث کی تلخیوں سے پاش پاش ہو گئی تھی۔ یہ جھگڑا ایک بیٹے اور اس کے بابا کے درمیان تھا، دو ایسی روحوں کے درمیان جن کے درمیان محبت کا ایک مضبوط رشتہ تھا، لیکن اس وقت ان کے درمیان غلط فہمیوں اور غرور کی ایک ناقابل عبور دیوار حائل ہو گئی تھی۔
بیٹے کا دل یہ فریاد کر رہا تھا کہ اس کے بابا اس کی بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس کی خواہشات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے گزارنا چاہتا تھا، اپنی راہوں کا خود انتخاب کرنا چاہتا تھا، جبکہ بابا، اپنی زندگی کے وسیع تجربے کی بنیاد پر، اسے ان خطرات اور مشکلات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے جو اس کے راستے میں آ سکتی تھیں۔
بات اتنی بڑھی، اتنی تلخ ہوئی کہ دونوں نے غصے کی تیز لہر میں بہہ کر ایسے الفاظ کہہ ڈالے جو شاید ان کے دلوں میں بھی نہ تھے۔ بیٹے نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے باپ کے دل پر گہرا زخم لگایا – اس نے اپنے بابا پر ظلم کرنے کا الزام لگا دیا۔ اور باپ نے، اپنی شفقت اور فکر کے اظہار میں سختی برتتے ہوئے، یہ کہہ دیا کہ وہ صرف اس کی بھلائی چاہتے ہیں، حالانکہ ان کا انداز بیٹے کو جابرانہ محسوس ہوا۔
آخرکار، نوجوان دل غصے اور ناراضگی کی ایک نہ ختم ہونے والی کیفیت سے لبریز ہو کر کمرے سے باہر نکل گیا اور سڑکوں کی اندھیری اور سنسان راہوں پر بھٹکنے لگا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس دنیا میں کوئی بھی اس کی بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا طوفان برپا تھا جس میں اسے ہر طرف دھند اور مایوسی نظر آ رہی تھی۔
لیکن جیسے جیسے رات کی سیاہی گہری ہوتی گئی، اس کے اندر کا جوش و خروش اور غصے کی تپش آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ سڑکوں کی خاموشی اور تنہائی نے اسے اپنے خیالات پر غور کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اسے اپنے بابا کی کہی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔ ان کے سخت الفاظ کے پیچھے چھپی ہوئی فکر اور محبت کی ایک ہلکی سی جھلک اسے اب دکھائی دینے لگی تھی۔
بابا نے کہا تھا کہ وہ صرف اس کی فکر کرتے ہیں، اس کی حفاظت چاہتے ہیں۔ بابا نے اسے زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ کیا تھا، اسے بتایا تھا کہ کامیابی کی منزل محنت اور لگن کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اچانک، ایک تیز روشنی کی طرح، بیٹے کو احساس ہوا کہ اس کے بابا غلط نہیں کہہ رہے تھے۔ ان کی باتیں سچائی پر مبنی تھیں۔ وہ واقعی اس سے پیار کرتے ہیں، اور ان کی فکر ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہے۔
شاید ان کا اپنی بات سمجھانے کا انداز درست نہیں تھا، شاید وہ اپنی شفقت کا اظہار نرمی سے نہیں کر پائے تھے، لیکن ان کی نیت ہمیشہ ٹھیک تھی، ان کا مقصد صرف اپنے بیٹے کا بہتر مستقبل تھا۔ بیٹے کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا۔ اس کے دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا۔ اس نے فوراً پلٹنے کا فیصلہ کیا۔ وہ واپس اپنے گھر کی طرف دوڑا۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے اپنے بابا کو وہیں بیٹھے پایا، ان کے چہرے پر فکر اور انتظار کے آثار نمایاں تھے۔ بیٹے نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے بابا سے معافی مانگی۔ اس کی آواز میں ندامت اور سچائی بسی ہوئی تھی۔ بابا نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور فوراً اٹھ کر اسے گلے لگا لیا۔ اس وقت لڑکے کی تمام تلخیاں، تمام غلط فہمیاں اور تمام ناراضگیاں ختم ہو گئیں۔ دونوں خاموشی سے کچھ دیر تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے۔
اس خاموشی میں کسی قسم کا تناؤ نہیں تھا، بلکہ یہ محبت، سمجھ داری اور ایک دوسرے کے لیے بے غرض جذبے سے لبریز تھی۔ بیٹے نے آج یہ بخوبی سمجھ لیا تھا کہ اس کے بابا کی محبت کتنی قیمتی ہے، اور بابا نے بھی یہ جان لیا تھا کہ اپنے بیٹے کو کبھی کبھی اپنی بات سمجھانے کے لیے نرمی اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ یہ رات ان دونوں کے لیے ایک اہم سبق لے کر آئی تھی – محبت اور احترام ہر قسم کی غلط فہمیوں پر غالب آ سکتے ہیں۔
سبق: بابا کی محبت ہمیشہ سچّی ہوتی ہے، اگرچہ اسے ظاہر کرنے کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے۔