The impact of parental fights on children والدین کے جھگڑوں کا بچوں پر اثر

Uzaif Nazir
0
Scene showing moral lesson from The impact of parental fights on children Urdu story

گھر کے آنگن میں ایک ایسی خاموشی چھائی تھی جو کسی چیختی ہوئی صدا سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ یہ وہ خاموشی تھی جس نے ہوا میں تناؤ بھر دیا تھا، جہاں ہر سانس ایک بوجھ بن گئی تھی۔ چھوٹے بچے، جن کی کلکاریاں کبھی اس گھر کی روح ہوا کرتی تھیں، آج سہمی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں ایک انجانا ڈر تھا، ان کے ننھے دلوں پر ایک ایسا بوجھ تھا جس کا اظہار کرنا بھی ان کے لیے مشکل تھا۔ 

یہ خاموشی کسی طوفان سے پہلے کے سکون کی طرح تھی، جس میں ہر لمحہ ایک دھماکے کا انتظار کر رہا تھا۔ وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ گھر کے ستون، یعنی ان کے والدین، ہر وقت ایک ایسی لڑائی میں مصروف رہتے تھے جس میں الفاظ ہتھیاروں کی طرح استعمال ہوتے تھے۔  محبت کا گھر نفرت کے میدان میں بدل چکا تھا۔

 ان کے الفاظ تیروں کی طرح چلتے اور سیدھا دلوں میں لگتے، آوازیں گرجتی ہوئی بجلیوں کی مانند لگتیں، جو نہ صرف گھر کی فضا کو غمگین کرتیں بلکہ ان بچوں کے چھوٹے دلوں پر ہمیشہ ایک دائمی خوف طاری رکھتی تھیں۔ وہ معصوم روحیں ہر لمحہ ایک ایسی کیفیت سے گزرتی تھیں جہاں انہیں یہ بھی یقین نہیں تھا کہ اگلا لمحہ کیا لے کر آئے گا۔  ان کی ہنسی کھو گئی تھی، ان کی شرارتیں دم توڑ چکی تھیں، اور ان کی روشن آنکھیں اداسی کی ایک گہری چادر میں لپٹی ہوئی تھیں۔

 ایک ایسی ہی المناک رات، جب موسم خراب تھا، طوفانی ہوائیں اور موسلا دھار بارش ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی، گھر کے اندر کا ماحول بھی کسی طوفان سے کم نہ تھا۔  بچوں کی سب سے چھوٹی بہن، جو ابھی زندگی کی خوبصورتیوں سے پوری طرح واقف بھی نہیں تھی، سہم کر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔ اس کے چھوٹے سے وجود میں ایک انجانا خوف بس گیا تھا۔  اس نے اپنی معصوم آواز میں ڈرتے ہوئے پوچھا۔ امی، کیا سب ٹھیک ہے؟ اس سوال میں ایک ایسی التجا تھی جو کسی بھی دل کو پگھلا سکتی تھی۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

  وہ جانتی تھی کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنے اندر ٹوٹ رہی تھی، لیکن اپنے بچوں کے سامنے مضبوط بننے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اس کے پاس اپنی بیٹی کے اس معصوم سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ وہ اپنی بچی کو کیسے بتاتی کہ جن دو لوگوں کو وہ اپنی دنیا سمجھتی ہے، وہ خود ایک دوسرے کی دنیا کو ویران کر رہے ہیں؟ اس کی خاموشی اس کے درد کی گواہ تھی۔

  بڑا بھائی، جو اب بچپن کی دہلیز پار کر کے جوانی کی طرف قدم بڑھا رہا تھا، خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کے جوان دل میں ایک ایسا درد پیدا ہو رہا تھا جسے وہ مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔  اس نے اپنے معصوم بہن بھائیوں کی سسکیاں سنی تھیں، اس نے اپنی ماں کی بے بسی دیکھی تھی، اور اس نے اپنے باپ کی غضبناک آنکھوں میں چھپی ہوئی تکلیف کو بھی کہیں نہ کہیں محسوس کیا تھا۔

 اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید خاموش تماشائی نہیں رہے گا۔ اگلے دن، جب والدین ایک بار پھر اپنی تلخ کلامی میں مصروف تھے، جب گھر کی فضا ایک بار پھر بھاری ہو رہی تھی، تو وہ آگے بڑھا اور ایک ایسی آواز میں بولا جو اس کی عمر سے کہیں زیادہ پختہ تھی، بس، اب بہت ہو گیا! اس کی آواز میں اتنی شدت، اتنا درد اور اتنی التجا تھی کہ لڑتے ہوئے والدین بھی ایک لمحے کے لیے رک گئے۔ 

ان کی نظریں اپنے بڑے بیٹے پر جم گئیں۔ بچے کے یہ چند الفاظ تیر بن کر ان کے دلوں میں اتر گئے۔ انہیں پہلی بار شدت سے احساس ہوا کہ ان کی یہ لڑائی صرف ان تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے زہریلے اثرات ان کے معصوم بچوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔ ان کی لڑائی نے ان کے گھر کی خوشیوں کو نگل لیا تھا اور ان کے بچوں کے مستقبل پر ایک تاریک سایہ ڈال دیا تھا۔

 اس دن کے بعد، گھر میں ایک خاموش انقلاب برپا ہوا۔ چیزیں فوراً تو نہیں بدلیں، لیکن آہستہ آہستہ بہتری آنے لگی۔  والدین نے ایک خاموش معاہدہ کیا کہ وہ اپنے مسائل کو اب کبھی بچوں کے سامنے نہیں لائیں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے بات کرنا شروع کی، ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کے درمیان جو دوری پیدا ہو گئی تھی، اسے کم کرنے کے لیے انہوں نے مخلصانہ کوششیں شروع کر دیں۔

بچوں کے دلوں سے وہ گہرا خوف تو فوراً نہیں گیا، لیکن انہیں محسوس ہوا کہ اب حالات پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں۔  گھر کی فضا میں تناؤ کم ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ گھر میں پھر سے ہنسی کی مدھم آوازیں گونجنے لگیں۔  بچوں نے اس تلخ تجربے سے ایک اہم سبق سیکھا کہ مشکلات سے بھاگنا نہیں، بلکہ ان کا سامنا کرنا اور ان کا حل نکالنا ضروری ہے۔

 اور والدین نے یہ سیکھا کہ ان کی سب سے بڑی ذمہ داری صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کے معصوم بچوں کی خوشی، سلامتی اور ذہنی سکون بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ انہوں نے جانا کہ ایک خوشگوار گھر ہی بچوں کی بہترین تربیت گاہ ہوتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے اعمال کا ہمارے بچوں پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے اور ایک پرسکون گھریلو ماحول ان کی نشوونما کے لیے کس قدر ضروری ہے۔

سبق: والدین کے جھگڑے بچوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس لئے بچوں کے سامنے لڑنے سے گریز کریں کیونکہ بچے خاموش تماشائی نہیں ہوتے، وہ سب محسوس کرتے ہیں۔
 

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)