The Demonic Book شیطانی کتاب

Uzaif Nazir
0

Scene showing moral lesson from The Demonic Book Urdu story

احمد کے ہاتھوں میں جب وہ کتاب تھمائی گئی تو اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ کتاب کے پر کوئی نام نہیں تھا، بس ایک عجیب سا نشان بنا ہوا تھا جو کسی بھولی بسری زبان کا حصہ لگ رہا تھا۔ دکان کے بزرگ مالک نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، یہ کتاب عام نہیں ہے۔ یہ صرف اس شخص کے پاس رہ سکتی ہے جسے یہ خود منتخب کرے۔
احمد نے کتاب کو احتیاط سے اپنے بیگ میں ڈالا۔ گھر کی طرف چلتے ہوئے اسے مسلسل یہ احساس ہوتا رہا کہ کوئی سایہ اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ گھر پہنچ کر جب اس نے کتاب کھولی تو پہلا صفحہ بالکل خالی تھا۔ دوسرے صفحے پر صرف ایک مختصر سا جملہ لکھا ہوا تھا: جو تم لکھو گے، وہ حقیقت بن جائے گا۔ 
لیکن یاد رکھنا، ہر خواہش کی ایک قیمت ہوتی ہے۔پہلے تو احمد نے اس بات کو محض ایک اتفاق سمجھا۔ اس نے ایک قلم اٹھایا اور کتاب پر لکھ دیا: کاش میرے پاس ایک نیا موبائل فون ہوتا۔ اگلے ہی لمحے اس کے کمرے کی میز پر ایک شاندار فون نمودار ہو گیا۔ وہ حیرت سے فون اٹھانے لگا تو اس کی نظر اپنے پرانے فون پر پڑی جو اب بری طرح ٹوٹا ہوا تھا۔ کتاب کے اگلے صفحے پر ایک اور وارننگ درج تھی: ہر چیز جو تمہیں ملتی ہے، اس کے بدلے میں کچھ نہ کچھ کھونا پڑتا ہے۔
اب احمد کو سمجھ آ گیا تھا کہ یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے۔ اگلے دن اس نے اپنے گہرے دوست علی کو سب کچھ بتایا۔ علی نے فوراً کہا، یہ تو سراسر مصیبت کی جڑ ہے! تمہیں جلد از جلد اس سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ لیکن جب بھی انہوں نے کتاب کو پھینکنے کی کوشش کی، وہ پراسرار طور پر واپس احمد کے بیگ میں آ جاتی۔کچھ دنوں بعد، احمد کی ماں اچانک بیمار پڑ گئیں۔
 ڈاکٹروں نے بتایا کہ علاج بہت مہنگا اور پیچیدہ ہے۔ احمد نے گھبرا کر کتاب کھولی اور لرزتے ہاتھوں سے لکھا: میری ماں فوراً ٹھیک ہو جائے۔ اگلی صبح اس کی ماں مکمل طور پر صحت یاب ہو گئی تھیں، لیکن اسی شام ایک دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ اس کے والد ایک خوفناک کار حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔
احمد نے غصے اور مایوسی سے بھری ہوئی آواز میں کہا، یہ کوئی لعنت ہے! وہ رات بھر اس خوفناک خواب سے پریشان رہا کہ کتاب سے ایک کالا دھواں نکل رہا ہے جو ایک ڈراؤنی شکل میں بدل رہا ہے۔ وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھا۔صبح کی پہلی روشنی کے ساتھ ہی احمد نے شہر کے ایک مشہور اور دانا بزرگ سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ بزرگ نے کتاب کو بغور معائنہ کرنے کے بعد کہا، یہ کوئی طاقت نہیں، بلکہ ایک شیطانی کتاب ہے۔
 اس سے چھٹکارا پانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے - تمہیں اپنی سب سے قیمتی خواہش کو قربان کرنا پڑے گا۔احمد نے ایک لمبی اور گہری سانس لی اور اپنی تمام تر قوت ارادی کو مجتمع کرتے ہوئے کتاب پر لکھا: میں اپنی تمام خواہشات سے دستبردار ہوتا ہوں۔ مہربانی فرما کر اس کتاب کے اثرات کو ختم کر دیجیے۔ کتاب سے ایک تیز اور چمکدار روشنی نکلی اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ 
اب اس کے تمام صفحات بالکل خالی تھے، جیسے ان پر کبھی کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو۔ احمد نے اس کتاب کو ایک مضبوط صندوق میں بند کر دیا اور پھر کبھی اسے کبھی نہ کھولنے کا ارادہ کیا۔ کئی مہینے گزرنے کے بعد، جب احمد اپنی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو رہا تھا، اس نے صندوق کھولا۔ صندوق کے اندر وہی کتاب موجود تھی، لیکن اب اس پر وہ پراسرار نشان غائب تھا۔ 
احمد نے جیسے ہی کتاب کو اٹھایا، اسے ایسا لگا جیسے کتاب ایک مدھم سی مسکراہٹ بکھیر رہی ہو۔ اس نے فوراً کتاب کو واپس رکھا اور صندوق کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔کبھی کبھی رات کی گہری خاموشی میں احمد کو ایسا لگتا جیسے کوئی اس کے کمرے میں دبے قدموں چل رہا ہے اور کتاب کے صفحات کو آہستہ آہستہ الٹ رہا ہے۔
 لیکن جب وہ گھبرا کر آنکھیں کھولتا تو وہاں مکمل سکون کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ شاید یہ محض اس کا وہم تھا... یا شاید اس کتاب کا سایہ اب بھی کسی نہ کسی طرح اس کا پیچھا کر رہا تھا۔

سبق: طاقت کی لالچ اکثر تباہی لاتی ہے، اور حقیقی نجات اپنی خواہشات پر قابو پانے میں ہے۔

  • Newer

    The Demonic Book شیطانی کتاب

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)