کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگیاں دوسروں کے لیے روشنی بن جاتی ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ آج ایک ایسی ہی کہانی میں آپ کو بتانے والا ہوں کراچی کے ایک عام سے رکشہ ڈرائیور کی کہانی۔ جس نے نہ صرف لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچایا بلکہ ان کے دل تک بھی رسائی حاصل کر لی۔
یہ کہانی ہے رحیم دین کی، جس نے اپنی محنت اور خلوص سے 300 سے زائد شادیاں کروائیں۔ رحیم دین کا تعلق کراچی کے ایک غریب علاقے سے تھا۔ چھوٹی سی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، تو گھر چلانے کے لیے رکشہ چلانا شروع کر دیا۔
دن بھر کی محنت کے بعد بھی گھر میں دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری ہوتی۔ لیکن رحیم کے دل میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے، اس لیے جو بھی ضرورت مند اس کے رکشے پر بیٹھتا، وہ اس کی مدد کرنے کی کوشش ضرور کرتا۔ ایک دن کی بات ہے، رحیم نے ایک بوڑھے شخص کو رکشے پر سوار کیا۔
راستے میں بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے، لیکن مالی حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے شادی ممکن نہیں ہو پا رہی۔ رحیم نے اس کی بات غور سے سنی اور دل ہی دل میں ٹھان لی کہ وہ اس کی مدد کرے گا۔ اگلے کچھ دنوں میں اس نے اپنی کمائی کا ایک حصہ جمع کیا اور کچھ دوستوں سے مدد لے کر لڑکی کی شادی کا انتظام کر دیا۔
یہ پہلی شادی تھی جس میں رحیم نے مدد کی تھی۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ رحیم نے محسوس کیا کہ معاشرے میں بہت سے غریب گھرانے ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کرا پاتے۔ چھوٹی موٹی مدد سے ان کی زندگی بدل سکتی ہے۔ اس نے اپنے رکشے کے پیچھے ایک بورڈ لگا دیا جس پر لکھا تھا: غریب گھرانوں کی لڑکیوں کی مفت شادی میں مدد کی جاتی ہے۔ رابطہ کریں۔
لوگوں نے پہلے تو یقین نہیں کیا۔ کوئی سوچتا کہ یہ کوئی دھوکہ ہے، تو کوئی سمجھتا کہ شاید یہ رکشہ ڈرائیور مذاق کر رہا ہے۔ لیکن جب چند شادیوں کے بعد رحیم کی سچائی سب کے سامنے آئی، تو لوگ اس کے پاس مدد مانگنے آنے لگے۔ رحیم ہر کسی کی مدد نہیں کر پاتا تھا، لیکن جو بھی اس کے بس میں ہوتا، وہ ضرور کرتا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ رحیم نے اپنی جمع پونجی تک ختم کر دی، لیکن کسی کی شادی میں مدد کر کے وہ جو خوشی محسوس کرتا، وہ کسی اور چیز میں نہیں ملتی تھی۔ وہ کہتا تھا، جب میں کسی کی بیٹی کی شادی میں مدد کرتا ہوں، تو مجھے لگتا ہے جیسے میں نے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رحیم کا کام بڑھتا گیا۔
لوگ اسے پیار سے رحیم بھائی کہنے لگے۔ کئی دکاندار، کاروباری افراد اور عام لوگ بھی اس کے کام سے متاثر ہو کر اس کی مدد کرنے لگے۔ کبھی کوئی کپڑے دیتا، تو کبھی کوئی کھانے کا انتظام کر دیتا۔ رحیم نے کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، نہ ہی کبھی کسی کی مدد کو اپنا احسان بنایا۔
ایک واقعہ اچھا خاصا مشہور ہوا جب ایک لڑکی کی شادی میں رحیم نے خود اس کا ہاتھ پکڑ کر دولہے کے حوالے کیا۔ لڑکی کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اور ماں بیمار تھی۔ رحیم نے نہ صرف شادی کا سارا انتظام کیا بلکہ اس موقع پر اپنی جیب سے لڑکی کو کچھ زیورات بھی تحفے میں دیے۔ اس موقع پر موجود لوگوں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ رحیم کی شہرت اب صرف کراچی تک ہی محدود نہیں رہی۔ دوسرے شہروں سے بھی لوگ اس سے رابطہ کرنے لگے۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس کے کام کو نمایاں کیا، لیکن رحیم نے کبھی بھی شہرت کی خواہش نہیں کی۔ وہ تو بس خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ آج رحیم دین اس دنیا میں نہیں ہے، لیکن اس کا کام اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ اس نے 300 سے زائد شادیاں کروائیں، لیکن شاید ہی کسی نے اسے شکریہ تک کہا ہو۔ وہ چاہتا بھی نہیں تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ دوسروں کی خوشی میں ہی سچی خوشی ہے۔
سبق: چھوٹی سی نیکی بھی بڑا اثر رکھتی ہے۔ خلوص دل سے کیا گیا کام ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔