ایک چھوٹے سے اور پرسکون گاؤں میں ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا جس کا نام عادل تھا۔ وہ بہت غریب تھا اور اس کا زیادہ تر وقت محنت مزدوری کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ لیکن غربت اس کے دل میں پلنے والے بڑے اور روشن خوابوں کے سامنے کبھی رکاوٹ نہ بن سکی۔ عادل ہمیشہ ایک بہتر زندگی کی امید رکھتا تھا اور اس کے دل میں ایک گہری خواہش تھی کہ وہ بھی کبھی خوشحال اور کامیاب ہو۔
ایک دن، جب وہ گاؤں کے قریبی جنگل میں سوکھی لکڑیاں اکٹھی کرنے میں مصروف تھا، تو اسے ایک پرانا اور گرد آلود صندوق نظر آیا جو ایک گھنے درخت کی جڑوں میں چھپا ہوا تھا۔ عادل نے اس صندوق کو کھولا تو اس کے اندر اسے ایک عجیب و غریب اور پرانا قلم ملا۔ یہ قلم عام طور پر استعمال ہونے والے قلموں سے بالکل مختلف تھا۔ اس کے جسم پر پرانے اور پیچیدہ نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔
قلم ایک ہلکی سی لیکن عجیب چمک بھی رکھتا تھا، جو اسے اور بھی خاص بنا رہی تھی۔ عادل نے احتیاط سے اس قلم کو اٹھایا اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ وہ اس قلم کی قدروقیمت اور اس کی پوشیدہ طاقت سے بالکل بے خبر تھا۔ اگلی صبح، جب عادل اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور اپنی روزمرہ کی مصروفیات کے بارے میں سوچ رہا تھا، تو اس کی نظر اس قلم پر پڑی۔
اس نے ایک پرانا کاغذ اٹھایا اور اس قلم سے اس پر کچھ لکھنے کی کوشش کی۔ بے خیالی میں اس نے لکھا، میرے پاس ایک رسیلا سیب ہو۔ جیسے ہی اس نے یہ الفاظ مکمل کیے، ایک تازہ اور چمکدار سرخ سیب اچانک اس کے سامنے میز پر ظاہر ہو گیا۔ عادل اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ حیرت زدہ ہو کر اس سیب کو دیکھنے لگا اور پھر اس نے قلم کو دوبارہ اٹھا کر غور سے دیکھا۔
اس کے ذہن میں ایک سوال گھوم رہا تھا، کیا یہ قلم واقعی جادوئی ہے؟ اس بار عادل نے تھوڑا سوچ کر ایک اور خواہش لکھی، میرے پاس ایک بڑا اور خوبصورت گھر ہو۔ جیسے ہی اس نے یہ جملہ لکھا، ایک ناقابل یقین منظر اس کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوا۔ اس کا چھوٹا سا کمرہ پلک جھپکتے ہی ایک عالیشان، کشادہ اور خوبصورت گھر میں تبدیل ہو گیا۔ عادل کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
وہ اس نئے گھر کے ہر کونے میں گھومنے لگا اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتا رہا۔ اس نے سوچا کہ اب اس کی زندگی بالکل بدل جائے گی۔ وہ جو چاہے گا، بس اس قلم سے لکھے گا اور وہ چیز فوراً اس کے سامنے موجود ہو گی۔ اس نے اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان محسوس کیا۔ لیکن جلد ہی عادل کو یہ احساس ہونے لگا کہ ہر بار جب وہ اس جادوئی قلم سے کچھ لکھتا ہے، تو اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہو جاتا ہے۔
ایک دن اس نے اپنی دولت کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے لکھا، میرے پاس بہت سارے پیسے ہوں۔ فوراً ہی اس کے سامنے سونے اور چاندی کے سکوں کا ڈھیر لگ گیا، لیکن جب اس نے ان سکوں کو اٹھا کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ سب جعلی ہیں۔ اس کی خوشی فوراً پریشانی میں بدل گئی۔ عادل پریشانی کا شکار ہو گیا اور سوچنے لگا کہ یہ جادوئی قلم اس کی زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے اور خراب کر رہا ہے۔
ایک رات، جب عادل اپنی نئی دولت کے بارے میں سوچتے ہوئے سو نہیں پا رہا تھا، تو اس کی نظر اس چمکتے ہوئے قلم پر پڑی جو اس کے پاس میز پر رکھا تھا۔ اس نے قلم کو اٹھایا اور مایوسی بھرے لہجے میں کہا، اے قلم، آخر تمہارا راز کیا ہے؟ تم کیوں ہر بار میری خواہش کو پورا کرتے ہو، لیکن اس میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور کر دیتے ہو؟ عادل کے یہ الفاظ ختم ہوتے ہی، قلم ایک بار پھر چمکا، اور اس میں سے ایک ہلکی لیکن واضح آواز آئی، اے نوجوان، میں صرف وہی کرتا ہوں جو تم لکھتے ہو۔
تمہاری خواہشات میں گہرائی اور سچائی کی کمی ہے، اس لیے تمہارا نتیجہ بھی ادھورا ہوتا ہے۔ تم صرف ظاہری چیزیں مانگتے ہو، اس لیے تمہیں ظاہری نتائج ہی ملتے ہیں۔ عادل نے حیران ہو کر پوچھا، تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں اپنی خواہشوں کو کیسے پورا کروں؟ قلم نے جواب دیا، سب سے پہلے یہ جانو کہ تمہیں واقعی کیا چاہیے۔ اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکو اور سوچو کہ تمہاری حقیقی ضرورت کیا ہے۔
صرف وہی لکھو جو تمہارے دل کی گہرائیوں سے آئے، جس میں سچائی اور خلوص ہو۔ عادل خاموش ہو گیا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اس نے اپنے ماضی اور حال پر غور کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اصل میں اپنی زندگی سے کیا چاہتا ہے۔ پیسے اور بڑا گھر یقیناً اچھے تھے، لیکن کیا وہ واقعی خوشی کی ضمانت تھے؟ اس نے ان لوگوں کو دیکھا تھا جو امیر ہونے کے باوجود خوش نہیں تھے اور بڑے گھروں میں رہنے کے باوجود سکون کی تلاش میں تھے۔
آخر کار، اسے احساس ہوا کہ اس کی سب سے بڑی خواہش مادی چیزیں نہیں، بلکہ اندرونی سکون اور خوشی ہے۔ اس نے ایک کاغذ اٹھایا اور اس پر لکھا، میں ہمیشہ خوش رہوں۔ جیسے ہی اس نے یہ الفاظ لکھے، ایک عجیب سا سکون اس کے دل میں اتر گیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ایک بڑا بوجھ اس کے کندھوں سے اتر گیا ہو۔ اسے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ حقیقی خوشی پیسوں، شہرت یا مادی چیزوں سے نہیں آتی، بلکہ دل کے اطمینان اور اندرونی سکون میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
اس نے اس جادوئی قلم کو ایک طرف رکھ دیا اور اپنی زندگی کو جادو کے سہارے بدلنے کی بجائے اپنی محنت اور کوشش سے بہتر بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ اگلے دن، عادل نے اس جادوئی قلم کو اٹھایا اور گاؤں سے دور ایک پرانے اور گھنے درخت کے نیچے گہرا گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ اسے یہ یقین ہو گیا تھا کہ کسی بھی جادو کی طاقت سے کہیں زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی محنت، لگن اور ایمانداری سے اپنی زندگی کو سنوارے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب اپنی تمام تر توجہ اور توانائی اپنی محنت پر لگائے گا۔ اگلے ہی دن سے عادل نے سخت محنت کرنا شروع کر دی۔
اس نے مختلف کام کیے، کبھی کھیتوں میں مدد کی تو کبھی بازار میں سامان بیچا۔ اس کی ایمانداری اور محنت نے جلد ہی رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ لوگوں نے اس پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا اور اس کی مدد کرنے لگے۔ وقت گزرتا گیا اور عادل کی زندگی واقعی بدل گئی۔ اس نے اپنی محنت سے نہ صرف اچھی کمائی کی بلکہ لوگوں کا احترام اور محبت بھی حاصل کی۔ وہ اب خوش تھا، اور اسے گہرا یقین ہو گیا تھا کہ اصل جادو کسی قلم میں نہیں، بلکہ ہر انسان کے اپنے اندر چھپا ہوتا ہے – محنت، ایمانداری اور مثبت سوچ کا جادو۔
سبق: خوشی اور کامیابی کا اصل راستہ محنت اور خود اعتمادی ہے۔ جادو یا فوری حل سے کچھ نہیں ملتا، محنت ہی سب سے بڑا جادو ہے۔