ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک غریب لڑکی رہتی تھی۔ اس کے پاس دنیا کی سب سے قیمتی چیز تھی، مگر وہ خود نہیں جانتی تھی۔ اس کے والدین سخت محنت کرتے تھے تاکہ گھر کا چولھا جل سکے، لیکن اکثر اوقات کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ دن رات اپنے والدین کی مدد کرتی، کبھی کھیتوں میں ان کا ہاتھ بٹاتی تو کبھی گھر کے کاموں میں مصروف رہتی، مگر پھر بھی زندگی بہت مشکل تھی۔
غربت نے ان کے گھرانے پر اپنے ناخوشگوار سائے ڈالے ہوئے تھے اور ہر نیا دن ایک جدوجہد لے کر آتا تھا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی ان تمام مصائب کو خاموشی سے دیکھتی اور اپنے ننھے ہاتھوں سے جس قدر ممکن ہوتا، اپنے والدین کا بوجھ بانٹنے کی کوشش کرتی۔ اس کے معصوم دل میں اپنے والدین کے لیے بے پناہ محبت اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی ایک گہری خواہش تھی۔
ایک دن اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک ایسا تاجر آیا جو دور دراز کے علاقوں میں اپنے بے پناہ مال و دولت اور وسیع کاروبار کے لیے مشہور تھا۔ اس کے پاس ہر قسم کی قیمتی اشیاء تھیں۔ اس تاجر نے گاؤں والوں کے سامنے ایک دلچسپ پیشکش رکھی۔ اس نے اعلان کیا کہ جو بھی شخص اس سے کوئی بھی سوال پوچھے گا، وہ اسے بدلے میں ایک نہایت ہی قیمتی تحفہ عطا کرے گا۔ گاؤں کے لوگ اس انوکھی پیشکش پر حیران بھی ہوئے اور پرجوش بھی۔ ہر کوئی اپنی قسمت آزمانے اور کوئی انمول تحفہ حاصل کرنے کی امید میں تاجر کے پاس پہنچنے لگا۔
اسی دوران، اس غریب لڑکی کے معصوم دل میں بھی ایک گہرا تجسس پیدا ہوا۔ وہ بھی یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر اس تاجر کے پاس ایسی کون سی چیز ہے جسے وہ اتنا قیمتی قرار دیتا ہے۔ ایک انجانی کشش اسے اس تاجر کی طرف کھینچ لائی۔ وہ ہمت کر کے اس کے پاس گئی اور بڑی عاجزی اور احترام سے اپنا سوال پوچھا، جناب، آپ کے پاس اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز کیا ہے؟ اس کی آواز میں ایک معصومیت اور سچائی تھی جس نے تاجر کو متوجہ کیا۔
تاجر نے لڑکی کی طرف دیکھا اور اس کے سوال پر ایک دھیمی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ اس نے جواب دیا، بیٹی، بلاشبہ میرے پاس بے شمار دولت اور قیمتی اشیاء موجود ہیں، لیکن اگر میں تمہیں سچ بتاؤں تو میرے پاس جو سب سے قیمتی چیز ہے، وہ دراصل تمہارے پاس ہے۔ تاجر کے یہ الفاظ سن کر لڑکی حیران رہ گئی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک اتنا امیر اور صاحب حیثیت شخص ایسی بات کہہ سکتا ہے۔
وہ اپنی حیرت کو چھپا نہ سکی اور فوراً بولی، میرے پاس؟ کیا؟ جناب، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں تو ایک غریب لڑکی ہوں۔ میرے پاس تو پہننے کو ڈھنگ کے کپڑے بھی نہیں اور نہ ہی کھانے کو پیٹ بھر کر کھانا۔ میرے پاس بھلا کیا قیمتی چیز ہو سکتی ہے؟ اس کی آواز میں مایوسی اور سچائی تھی۔
تاجر نے اس کی طرف گہری نظروں سے دیکھا اور ایک نرم لہجے میں کہا، بیٹی، تمہارے پاس وہ انمول خزانہ ہے جسے دنیا کی کوئی بھی دولت خرید نہیں سکتی۔ تمہارے پاس محبت ہے، بے غرض قربانی کا جذبہ ہے اور سچی ایمانداری ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو تمہارے محنتی والدین کے پاکیزہ دلوں میں ہے، اور یہی انمول چیز تمہارے معصوم دل میں بھی موجود ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو کسی بھی انسان کو حقیقی معنوں میں امیر بناتی ہیں۔
لڑکی کو اس وقت تاجر کی باتوں کی گہرائی پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی، لیکن اس نے ان قیمتی الفاظ کو اپنے دل میں محفوظ کر لیا۔ وہ ان باتوں پر غور کرتی ہوئی خاموشی سے اپنے گھر واپس لوٹ گئی۔ وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا۔ کئی سال گزر گئے اور اس لڑکی نے اپنی محنت، سچی ایمانداری اور بے غرض قربانی کے جذبے سے نہ صرف اپنے والدین کی زندگی کو بدل دیا، بلکہ وہ اپنے پورے گاؤں کے لیے ایک روشن مثال بن گئی۔ اس کی محنت اور سچائی نے اسے کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا اور اس نے اپنے خاندان کو غربت کی تاریکی سے نکال کر خوشحالی کی روشنی میں لا کھڑا کیا۔
اب وہ اچھی طرح جان چکی تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی اور حقیقی دولت صرف پیسہ اور مادی اشیاء نہیں ہیں، بلکہ وہ لازوال محبت، وہ مضبوط ہمت اور وہ پاکیزہ کردار ہے جو ایک انسان اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اس نے یہ بھی سیکھا کہ سچی خوشی دوسروں کی خدمت کرنے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونے میں ہے۔ اس کی زندگی ایک ایسی کہانی بن گئی جس نے ثابت کیا کہ ظاہری غربت کے باوجود بھی ایک انسان اپنے باطنی خزانوں کی بدولت کس قدر عظیم اور قیمتی بن سکتا ہے۔ اس کی داستان لوگوں کو محنت، ایمانداری اور محبت کی اہمیت یاد دلاتی ہے اور انہیں یہ یقین دلاتی ہے کہ حقیقی دولت دلوں میں بسی ہوتی ہے۔
سبق: غربت صرف مالی نہیں، بلکہ وہ سوچ ہوتی ہے جو انسان اپنے اندر رکھتا ہے، اور اصلی خوشی دل کی دولت ہے۔